لاہور( این این آئی) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں صوبہ جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کو عملی جامع پہنانے کیلئے خاطر خواہ اقدامات اٹھانے اورگزشتہ حکومت کے شروع کئے گئے تمام ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کیلئے خاطر خواہ فنڈز مختص کئے جائیں،مہنگائی کے جن کوقابو کیاجائے ،بلدیاتی حکومت کے ذریعے میونسپل سروس کو فعال اورزراعت کے شعبہ میں سبسڈی اور ریلیف جیسے اقدامات کئے جائیں ،
ہماری حکومت نے 635ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ پیش کیا جبکہ موجودہ حکومت نے رواں مالی سال اس بجٹ میں 400ارب روپے کا کٹ لگا دیا ،ہمارے دور میں اس مدت تک ترقیاتی بجٹ کی مد میں255ارب روپے خرچ ہو چکے تھے جبکہ موجودہ حکومت 238ارب میں سے صرف 88ارب روپے خرچ کئے ہیں،صرف مخالفین کو چور اور ڈاکو کہنے سے بات نہیں بنے گی کام کر کے دکھائیں ۔ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں پری بجٹ بحث پر آغاز کرتے ہوئے حمزہ شہباز شریف نے کہا کہ حال ہی میں پلوامہ حملے کے بعدبھارت اورپاکستان کے درمیاں پیدا ہونے والی کشیدگی کی صورتحال میں جس طرح پاک فضائیہ کے بہادر شاہینوں نے جس جرات اور بہادری سے اپنے ملک کا دفاع کیا اور بھارتی طیاروں کو گرایااس پر میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں ،اس کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ملکی دفاع میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ایک بار پھر یہ ثابت کیا کہ کوئی بھی ہماری سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی غلطی نہ کرے۔میں قوم کے غیور بیٹوں حوالدارعبدالرب او رنائیک خرم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے ملک کے دفاع میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اورہم کبھی بھی ان کی قربانیوں کو نہیں بھلائیں گے۔میں امید کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مودی کو ہدایت دے اور اس کے سر پر جنگی جنون جو محض سستی سیاسی شہرت حاصل کرنے کے لئے سوارہے اور جس کا ہدف صرف آنے والے انتخابات ہیں ،
ایسی پسماندہ اور خود غرض سوچ رکھنے والوں سے بہتری کا کیا تقاضہ کیاجاسکتا ہے مگر یادرہے کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے جو ہر مشکل حالات میں اپنے دفاع کی پوری صلاحیت رکھتاہے لہٰذاامن کے پیغام کو ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے۔حمزہ شہباز نے کہا کہ پیشگی بجٹ سیشن مسلم لیگ(ن) کی 2010میں قائم کردہ روایت ہے جسے رولز آف بزنس کا حصہ بنایا گیا اور اس کے ذریعہ سے ایوان میں موجود عوامی نمائندگان کی رائے کو ہمیشہ ترقیاتی منصوبوں کا حصہ بنایا گیا او ربجٹ میں انکی قیمتی آرا ء کو شامل کیاگیا ۔ہم اسی روایت کو برقرار رکھنے کے خواہاں ہیں
اور امید کرتے ہیں کہ ایوان کا تقدس قائم رکھتے ہوئے آج موجودہ نمائندگان کی آرا ء کو ترجیحی بنیادوں پر پر صوبائی ترقی کے لئے ملحوظ خاطر لایاجائے گا اور انہیں بجٹ میں شامل کیاجائے ۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ کیسا پنجاب تھا جو ہم نے 2018میں پی ٹی آئی کی حکومت کے حوالے کیا، اس پنجاب کی حالیہ 8ماہ میں کیا حالت ہوئی۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے دورحکومت میں بجٹ ہمیشہ عوام دوست اورغریب عوام کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن رہا۔ 2013سے 2017تک پنجاب میں ترقی کی رفتار تیز ترین رہی اور دوسرے صوبوں کے
مقابلے میں پنجاب کی ترقی کا گراف 184فیصد زیادہ رہا۔ہمارے دور میں جو قرضے لئے گئے ان کو ہر ممکن حد تک ترقیاتی منصوبوں میں استعمال کیا گیا اور معیشت کے جام پہیے کو تقویت دی جس کے نتیجے میں نہ صر ف جی ڈی پیکی شرع 3.6فیصد سے بڑھ کر 6فیصد تک جا پہنچی بلکہ پہلی مرتبہ ایسا ہوا کی آئی ایم ایف سے وصول شدہ پروگرام کامیابی سے مکمل ہوا ،قرضہ واپس ادا کیاگیا اور ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھا اور وپے کی قدر کو بڑھایا۔یہ ہماری فعال معاشی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ روزگار عام ہونے لگا ،کاروباری مراکز آباد ہوئے ،تاجر اور کاروباری طبقہ کا اعتماد بحال ہوا،
غیر ملکی سرمایا کاری آئی ،مزدور بھی اپنے پیٹ پالنے لگے اور ملک ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن تھا ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دور میں بجلی کے منصوبے لگائے گئے ،نیشنل گرڈ میں11000میگاواٹ بجلی کا اضافہہ ہوا ،8000کلومیٹر شاہرات تعمیر کی گئی ،وسیع پیمانے پر گیس پائب لائن بچھائی گئیں،کھادوں کی پیداوار میں ملک کو خود کفیل بنا یااور گزشتہ 3سال میں پاکستان کو کھادوں کی امپورٹ نہیں کرنا پڑی بلکہ ہم کھاد کی فراہمی میں ضرورت سے زیادہ اضافہ کرچکے تھے اور ایکسپورٹ کی جانب قدم بڑھا رہے تھے ۔حمزہ شہباز نے کہا کہ مسلم لیگ(ن) کے پنجاب میں
دس سالہ دور حکومت میں تعلیم کے میدان میں 500فیصد تک بجٹ بڑھایاگیا جس سے اساتذہ ،سکولز ،کالجز ،یونیورسٹیاں جدید تعلیم کے انتظامات جیسی متعدد سہولیا ت کے معیار کو بہتر بنایاگیا ،بچوں کو لیپ ٹاپ جیسی جدید سہولیات سے آراستہ کیاگیا ،اینٹوں کے بھٹوں پرکام کرنے والے بچوں کو تعلیم سے وابستہ کیا گیا،جنوبی پنجاب کے16اضلاع میں پانچ لاکھ بچیوں کو زیورتعلیم پروگرام کے تحت تعلیم سے وابستہ کیاگیا ،رحیم یارخان میں خواجہ فرید آئی ٹی یونیورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیم کے منصوبے عمل میںآئے،انرولمنٹ بڑھی ،مفت کتابیں میسر آئیں ۔مجھے حیرت ہوتی ہے جب موجودہ حکومت
اپنے مختصر سے ترقیاتی بجٹ میں تعلیم پر 14فیصد بجٹ بتا کر اسے کارنامہ ظاہر کرتی ہے۔اسی دس سالہ عرصہ میں صحت کے شعبے میں 525فیصد بجٹ بڑھایاگیا اس سے نرسوں کی ٹریننگ اور ضلع اور تحصیل کی سطح پر ہسپتالوں کی حالت بدلی گئی ایم ار آئی اور سٹی سکین جیسی جدید مشینوں سے آراستہ کیا گیا ،یونین کونسل اور دیہات کی سطح پر موبائل طبی سہولتوں کی فراہمی کو ممکن بنایا ، سرکاری ہسپتالوں میں 86فیصد ادویات کی مفت فراہمی کو یقنی بنایا۔طیب اردگان ہسپتال کا مظفر گڑھ میں قیام ،پی کے ایل آئی جیسا لیور اور کڈنی ٹرانسنپلانٹ کی سہولت فراہم کی جوکہ کسی بھی بین الاقومی سطح کے طبی سہولت سے کسی طور کم نہیں۔
ہیلتھ انشورنس پروگرام متعارف کروایاگیا ،پنجاب ہیلتھ کارڈ کا اجرا 17اضلاع میں کیا گیا جو آج کل پی ٹی آئی کی حکومت اپنے نام کی تختی لگا کر اپنی کارکردگی ظاہر کرنے میں مصروف ہے ۔یہ مضحکہ خیز نہیں تو کیا ہے ہم نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو اچھی کاوش کے طور پر سراہا اپنے دور حکومت میں اس کا بجٹ 3گنا بڑھایا مگر اس کا نام بدلنے جیسی کم ظرفی نہیں دیکھائی ۔انہوں نے کہا کہ فارما سیوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن عندیہ دیا تھا کہ اگر حکومت نے ادویات کے شعبہ میں سہولیات فراہم نہ کیں بجلی اور گیس میں اسی طرح اصافہ ہوتا رہا تو ادویات کی قیمت میں ایک مہینے میں 40فیصد تک اضافہ کیاجائے گا جو کہ گزشتہ ایک مہینے میں
دو مرتبہ 15فیصد اور پھر 15فیصد اضافہ کیاجاچکاہے ،یہ بذات خود انتہائی افسوسناک عمل ہے کہ آج کا غریب بنیادی طبی سہولت سے کس بے دردی سے محروم کیاجارہاہے۔حمزہ شہباز نے کہا کہ زراعت جس پر ہماری معیشت کا بڑا انحصار ہے جو کہ پنجاب میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اس شعبے کی مد میں موجودہ حکومت نے بجٹ 21ارب سے 7ارب تک محدود کردیا ۔زراعت کے شعبہ میں ہم نے 78ارب روپے خرچ کئے اور اس کے علاوہ 3.2ٹریلن کے ایگر کلچر لون دیئے اور زراعت کے لئے مختلف کسان پیکجز 10 سال کے عرصہ میں کامیابی سے متعارف کروائے۔ زراعت کے شعبہ میں گیس کی فراہمی کو کامیابی سے ممکن بنایا جس کے
نتیجہ میں پاکستان کھادیں بنانے میں خود کیفل ہوا ور غیر ملکی برآمدات پر ہمارا انحصار تین سال تک بند رہا جوکہ اس سال دوبارہ واپسی کے سفر پرگامزن ہے مگر افسوسنا ک بات یہ ہے کہ گیس کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے اس سال ہمیں دوبارہ 40m ڈالرزکی کھا د ایمپورٹ کرنا پڑی اور ڈی اے پی کی قیمت فی بوری 2900روپے سے بڑھا کر 3550تک جا پہنچی یہی صورتحال بجلی ،گیس اور پیٹرول کی قیمتوں کا ہے ۔ہم نے ناصر ف ملک کو کھا د میں خود کفیل بنایا بلکہ کسانوں کو ریلف دیا سہولیات دیں آسان قرضے دیئے ،زرعی آلات سے آراستہ کیا ،21ملین ایکٹر اضافی زمین پر آبادکاری کی ،نہروں کا تحفظ ممکن بنایا جس سے کسان کی کاشتکاری میں اضافہ ہوا آمدنی بڑھی
اور زرعی خوشحالی آئی ۔انفراسٹیکچر کے میدان میں یہ وہ پنجاب ہے جس نے ہمارے دور حکومت میں 8000ہزار کلو میٹر فارم ٹو مارکیٹ دیہی سڑکوں کا جال بچھایا،250سے زائد پل تعمیر کئے متعدد فلائی اوور بنائے ،سی پیک جیسے منصوبے کی مد میں اورنج لائن کا تحفہ پنجاب کی عوام کو دیا جس کا اقرار آج سپریم کورٹ کے سابقہ چیف جسٹس بھی کرگئے ۔تین میٹرو بس کے منصوبے مکمل کرکے عوام کو بہترین سفری سہولیات مہیا کیں جن کا تخمینہ آج کی پشاور کی ایک میٹر بس جو کہ 100ارب سے تجاوز کر چکی ہے او رمکمل ہونے کا نام نہیں لیتی لوگ وہاں سے تعمیراتی سامان اکھاڑ کے لے جارہے ہیں ،کھڈے پتھر وں سے بھرے جارہے ہیں اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں
اس کے برعکس پنجاب میں تین میٹر وبس کے منصوبے کامیابی سے چل رہے ہیں تینوں کی کل رقم ملا کر 100ارب سے تجاوز نہیں کرتی ۔فرانزک لیبارٹی جیسا تحفہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں پنجاب کو دیاگیا جس سے آج پور املک مستفید ہے چاہے پھر مردان کی بچی عاصمہ کا واقع ہو ،قصور کا واقع ہو یا پھر تحفظ فراہم کرنے والے ادارے ۔پنجاب ریونیواتھارٹی کا قیام 2012میں عمل میں لایا گیا جس کے تحت گزشتہ 5سال میں ریونیوکلکشن کی مد میں 293فیصد اضافہ ہوا ،ٹیکس میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ،گاڑیوں اور ریسٹورنٹ کی رجسٹریشن کو یقینی بنایا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ میں یاد دلاتا چلوں موجودہ حکومت نے الیکشن سے پہلے صوبہ جنوبی پنجاب کے حق میں نعرے لگائے
اور اسے اپنے منشور کا حصہ بنایا جنوبی پنجاب محاذ کے علمبردار بنے جو آج محض وفادراریاں خریدنے کا بہانا اور آرٹ ثابت ہوا صوبہ بنانا تو دور کی بات نیازی صاحب نے تو کبھی اس کا ذکر بھی نہیں کیا ۔جنوبی پنجاب کے عوام کو سبز باغ دیکھا کر دھوکہ دیاجارہاہے اور ان کے مسائل کے حل میں کوئی سنجیدہ پیشرفت نہ ہوسکی ہم نے 2012-13میں اس کے قانونی اور دستوری تقاضے متفقہ قرارداد کی منظوری کی صورت میں پورے کئے جو آج منتظر ہے کہ آئین میں ترمیم کے ذریعے بہاولپور اور جنوبی پنجاب کو الگ الگ صوبوں میں تشکیل دیاجائے ۔ہمارے دور حکومت میں جنوبی پنجاب کا ترقیاتی بجٹ 16فیصد سے بڑھا کر 36فیصد تک لے جایاگیا جو کہ 229ارب بنتا ہے آج پنجاب کا کل
ترقیاتی بجٹ محض 238ارب ہے ۔آپ اسی بات سے اندازہ لگا لیں کہ ماضی کے دورحکومت اور آج کی حکومت کی صوبائی ترقیاتی منصوبوں کا کیا موازنہ کیاجاسکتا ہے ۔یہ ہے وہ صورتحال جس میں پی ٹی آئی کو حکومت ملی ۔حمزہ شہباز نے کہا کہ پچھلے 8مہینے کا مختصرسا جائز ہ لے لیتے ہیںآج موجودہ معاشی صورتحال میں جی ڈی پی دوبارہ 3فیصد کے ہندسے کی طرف بڑھ رہاہے ،افراط زر 8.5فیصد تک جاپہنچی ،ترسیلات تقریباً 2بلین ڈالر تک محدود ہوگئی امپورٹ کے اخراجات بڑھ گئے اور ایکسپورٹ امپورٹ کے مقابلے میں نصف بھی نہیں رہی ۔سٹاک مارکیٹ میں ماضی کے مقابلے میں20ملین ڈالر کا خسارہ ہوچکا بڑے پیمانے پر فارن انوسٹمنٹ نکال لی گئی ۔جب صوبے کا بجٹ 635ارب سے 238ارب پر لایا گیا
تو یہاں ترقی او رخوشحالی کی بات کیا کرنی اس میں سے بھی تاحال صرف 88ارب خرچ کئے گئے اور موجودہ صورتحال میں ٹرانسپورٹ ،زراعت ،پروڈیکشن اور تعمیرات کے شعبوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی اس کے مقابلے میں پچھلے سال ہماری حکومت نے اسی دورانیے میں 255ارب روپے ترقیاتی کاموں پر خرچ کئے اور صوبائی ترقی کا پہیہ تیز سے تیز تر کیا ۔ذرا غور طلب ہے کہ ملک میں اب تک ٹیکس مجموعہ 244بلین کے خسارے میں ہے جس کا ڈائریکٹ اثر این ایف سی ایوارڈ پر پڑے گا اور صوبوں کو ترقیاتی بجٹ پر مزید کٹ لگانا پڑے گا،پنجاب میں 276ارب کا ٹیکس ٹارگٹ ہے اور نان ٹیکس ریونیوٹارگٹ 100ارب کاہے جوکہ کسی صورت پور ہوتا نظر نہیں آتا لہٰذا ڈویلپمنٹ اخراجات مزید متاثرہوگا ۔
ابھی تک 31فیصد ٹیکس ٹارگٹ میں خسارہ ہے ،50فیصد نان ٹیکس ریونیوٹارگٹ میں خسارہ ہے۔ٹیکس ریفارمیز کے بلندوبانگ دعوے کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ اب تک ٹیکس دہندگان کی تعداد میں2لاکھ افراد کی کمی واقع ہو چکی ہے،8مہینے کے عرصہ میں ایف بی آر کے مطابق ٹیس ریونیو کی مد میں 244ارب روپے کا خسارہ ہوچکا ہے اور دوسری جانب حکومتی اخراجات بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔تاحال بیرون ممالک سے آنے والے ڈی ایف آئی کا 72فیصد حصہ ان کنٹریکٹس کانتیجہ جو ہمارے دورے حکومت میں کئے گئے۔ہم گذشتہ برس پنجاب کا بجٹ 635bnتک لے گئے جو کہ اب محض 238bnرہ گیا ہے یہ سیدھا سید ھا 63فیصد کل بجٹ میں کمی ہے جو کہ 400bnکا کٹ بنتا ہے ۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ
شہباز شریف کے دور حکومت میں جتنے بھی میگا ترقیاتی پروجیکٹ کامیابی سے شروع کئے گئے تھے وہ آج سست روی اور التوا کا شکارہیں یا پھر اپنی آخری سانسیں گن رہے ہیں جس کے نتیجے میں صوبہ بے روزگاری اور بے راہ روی کی جانب گامزن ہے ۔اس صورتحال کی پیش نطر تقریبا 12ملین نوجوان بچے او ربچیاں روزگار کے مواقعوں کے متلاشی ہیں مگر یہ حکومت روزگا ر کے اقدام کرنے کی بجائے نوجوانوں سے روزگارچھننے میں مصروف عمل ہے ۔دور حاضر کی معاشی پالیسی اس صوبے اور ملک کی معیشت اور نوجوانوں کی تقدیر کے ساتھ گھنونا کھیل رچانے کے سوا کچھ نہیں ۔حمزہ شہباز نے کہا کہ مزدور ،کسان ،نوکری پیشہ افراد ہ،کاروباری ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ آج مہنگائی کے بوجھ تلے دب چکے ہیں ۔
بجلی ،گیس ،پیٹرول ،اشیاء خوردو نوش نے ہر سطح پے عوام کی زندگی کومشکل میں ڈال رکھا ہے ۔عوامی بجٹ کی بنیاد چند اصولوں پر مبنی ہوتی ہے جس میں سرفہرست ہے کہ یہ شراکتی بنیادوں پر ہونا چاہیے سب کیلئے یکساں مواقع فراہم کئے جائیں ،روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں ، غربت میں کمی واقع کی جائے اور مہنگائی پر قابو،تمام طبقات کی نمائندگی کرے ۔دوسری جانب ہم نے 2030تک ایس ڈی جیز کے اہداف پر بھی پورا اترنا ہے جو کہ ہمارے نیشنل ڈویلپمنٹ پلان کا حصہ بھی ہے۔لہذا ہم بجٹ محض چند حلقوں کے ذاتی مفادات کو پورا کرنے کے لئے نہیں بنا سکتے جیسا کہ ہمیں منی بجٹ کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 8ماہ کے دوران تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے ریگریسو بجٹ پیش ہوا جس سے لوگوں میں بد اعتمادی
،ترقی کا فقدان ،مہنگائی اور حکومت کی نااہلی کے سوا کچھ نہیں ملا ۔موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ قیاس آرائی غلط نہ ہوگی کہ آئندہ آنے والا بجٹ مزید پریشان کن ثابت ہوگا۔حکومت کو 8مہینے گزر گئے اب مزید اس عزر کے ساتھ گزارا نہیں چل سکتا کہ ابھی سنبھلنے کے لئے اور وقت چاہیے ،ٹریننگ لے رہے ہیں ،ہمیں معلوم نہیں تھا ملکی معیشت کہاں کھڑی ہے ،پچھلی حکومت پر الزام تراشی کرنا بلکہ اب لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے شہر وں میں دوبارہ سے گندگی کے ڈھیر کیوں دکھنے لگے،پنجاب کے7بڑے شہروں میں سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کمپنیز بند پڑی ہیں انہیں فعال کب بنایاجائے گا،گلیاں ،سڑکیں ،سٹریٹ لائٹس خراب ہونے کی صورت میں کوئی ٹھیک کرنے کیوں نہیں آتا ۔میونسپل سطح کے مسائل کا پرسانے حال کوئی کیوں نہیں رہا ،بجلی کی فراہمی دوبارہ
کیون ناپید ہونے لگی ،مہنگائی کابم آئے دن کیوں گرنے لگا،ادویات جو کہ غریب انسان کے لئے نا ممکن بنتی جارہی ہیں ان کو کیسے میسر لایاجائے۔بنیادی صحت ،ضروریات زندگی ،تعلیم جیسے حقوق کو درکنار کیوں بنایا جارہا ہے ۔کسان ،کاروباری ،تاجر ،نوکری پیشہ ،نوجوان سب پوچھنے لگے ہیں آخر ان کا قصور کیاہے ۔آخر حکومت عوام کی دشمن کیوں بنے بیٹھی ہے وہ وقت کب آئے گا جب نیا پاکستان ہوگا جس میں ایک کروڑ نوکریاں ہونگی ،پچاس لاکھ گھر ہونگے ،ٹیکس پہلے سے دوگنا زیادہ جمع ہونگے یہ سب کہاں ہوگا اور عوام کو کب ملے گا۔انہوں نے کہا کہ میں عرض کرتا چلوں ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت ہوش کے ناخن لے آنے والے بجٹ کو عوام دوست بجٹ بنائے ترقیاتی بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرے معاشی پالیسی کی طر ف دھیان دے اور عوامی ریلیف کو اپنی
ترجیح بنائے ۔انہوں نے کہا کہ سوشل سیکٹر میں خاطر خواہ اضافہ کریں اب تک کوئی نیا ترقیاتی منصوبہ متعارف نہ کروانے کا واضع مطلب یہ ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پاس کوئی اپنا ترقیاتی منصوبہ یہ ایجنڈ ا موجود نہیں اور وہ تاحال ایسا کرنے سے قاصر ہیں ۔مگر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ گزشتہ حکومت کے شروع کردہ تمام ترقیاتی پراجیکٹس کو مکمل کیاجائے اور عوام کے لئے فعال بنایا جائے ۔ایجوکیشن اور ہیلتھ کو خصوصی ترجیح دی جائے ادویات کی قیمتوں میں کمی کے اقدام کئے جائیں ،مہنگائی کے جن کوقابو کیاجائے ،لوکل گورنمنٹ کے ذریعے میونسپل سروس کو فعالب بنایا جائے،زراعت کے شعبہ میں سبسڈی اور ریلیف جیسے اقدام کئے جائیں ،صوبہ جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کو قیام میں لایا جائے ،کاروباری اور تاجر افراد کی پشت پناہی کی جائے تاکہ کارورباری مراکز میں اصافہ کیاجاسکے ،بجلی کی قیمت میں کمی واقع کی جائے ،لااینڈ آرڈر کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے جیساکہ ہال ہی میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے سیف سٹی پراجیکٹ کی توسیع کا اعلان کیا اور اسے صوبے کے لئے کارآمد قرار دیا امید کرتے ہیں کہ وہ اس کی توسیع کریں گے نہ کہ اپنے نام کی تختی لگا کراسے
اپناکارنامہ ظاہرکریں گے۔ہم پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ اگلے بجٹ میں صوبہ جنوبی پنجاب اور صوبہ بہاولپور کو عملی جامع پہنانے کیلئے خاطر خواہ انتظام کئے جائیں ۔ملتان میں واقع خواتین پر تشدد کے حوالے سے سنٹر کو فعال بنایاجائے جوکہ فنڈز کی کمی کی وجہ سے 8ماہ سے تعطل کا شکار ہے ۔حمزہ شہباز نے کہا کہ اورنج لائن کے منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیاجائے تاکہ جو شہباز شریف کے دور میں اس منصوبے میں 75ارب روپے کی بچت کرکے صوبائی خزانے کو فائد ہ پہنچایا گیا تھا اس میں زد نہ آئے اور پہلے ہی پی ٹی آئی کی ہٹ دھر می کی وجہ سے اس پراجیکٹ کو 22مہینے کی تاخیر کا سامنا ہے ۔جس کو اب سپریم کورٹ نے بھی مکمل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت میںآنے سے پہلے ہیومن ڈویلپمنٹ پر خرچ کرنے کا تذکرہ کافی سنا جاتا تھا جو کہ اب بلا مبالغہ ناپید ہوچکا ہے ۔میںیادلاتا چلوں کہ ہیومن ڈویلپمنٹ کی مد میں صوبے کو ایک ایسا بجٹ درکار ہے جو نوجوانوں ،طالب علموں ،مردوں ،عورتوں ،بچوں ،بوڑھوں ،دیہاتی ،شہری ،غریب ،امیر ،تعلیم یافتہ ،ہنرمند ،معذور ،اقلیتوں ،تاجروں ،کاروباری طبقہ ،مزدوروں ،نوکری پیشہ غرض یہ کہ سب کے مفادات کا امین ہوناکہ منی بجٹ کی طرح محض چیدا چیدا امیر طبقات کومزید تقویت دینے کا عندیہ ہو۔