اسلام آباد(این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آسیہ بی بی کی بریت کیخلاف نظر ثانی درخوست مسترد کر تے ہوئے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے جبکہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست گزار کے وکیل سے کہا ہے کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے ؟ فیصلہ شہادتوں پر ہوا ہے، کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہو تو پھر بھی سزا دے دیں، اسلام کہتا ہے کہ سچی گواہی دو چاہے اپنے عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو، آپ کہتے ہیں کہ آسیہ بی بی 25 لوگوں کو مخاطب کرکے
کہہ رہی تھی، کیا کسی جلسے سے خطاب کر رہی تھی،اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہئیں تھے،تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے، جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قرآن پرھتی ہیں، ہم نے تحمل سے کام لیا ، اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہان کے خلاف مقدمہ درج کرواتے، آپ سارا پاکستان بلاک کردیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی؟ اگر انصاف کردیا تو واجب القتل ہوگئے؟ یہ ہے اسلام، اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے؟ایسے کیس میں جھوٹی گواہی دی جس میں سزائے موت ہو سکتی ہے اور ہوئی بھی ہے۔ منگل کو آسیہ بی بی کی رہائی کیخلاف نظرثانی اپیل پر سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی حصوصی بنچ نے کی ۔ سماعت کے دور ان درخواست گزار قاری محمدسلام کے وکیل غلام مصطفی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ یہ حساس اور قومی اہمیت کا معاملہ ہے۔ وکیل درخواست گزار غلام مصطفی نے کہاکہ نظرثانی درخواست کی سماعت کیلئے لارجر بینچ بنایا جائے۔ وکیل درخواست گزار نے کہاکہ بینچ میں اسلامی اسکالرز اور علماء کرام کو شامل کیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ مذہب کا معاملہ کیسے ہوا کیا فیصلہ میرٹ پر نہیں ہوا؟۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ فیصلہ شہادتوں پر ہوا ہے، کیا اسلام یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت نہ ہو تو پھر بھی سزا دے دیں۔
چیف جسٹس نے کہاکہ ثابت کریں کہ فیصلے میں کیا غلطی ہے۔ وکیل نے کہاکہ فیصلے میں کہا گیا بار ثبوت مدعی پر ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا آپ اس اصول سے اختلاف کرتے ہیں۔ وکیل نے کہاکہ سپریم کورٹ نے کچھ نظائر کو نظر انداز کیا۔وکیل نے کہاکہ اگر کہیں بیان پر جرح نہ کی گئی ہو تو اس بیان کو درست سمجھا جاتا ہے۔ وکیل نے کہا کہ یہ لارجر بنچ کا فیصلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر کوئی وکیل ملزم سے سوال پوچھنا بھول جائے تو اسے پھانسی لگا دیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ
آپ میرٹ پر بات کریں ۔وکیل نے کہاکہ بریت فیصلے میں نبی پاک ؐ کے عیسائیوں کے ساتھ معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ وکیل نے کہاکہ تمام علماء نے اس معاہدے کو باطل کہا ہے۔ وکیل نے کہاکہ عیسائیوں اور یہودیوں نے جزیہ سے بچنے کیلئے یہ معاہدہ بنایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کتاب کا حوالہ بھی دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا معاہدے میں جو لکھا گیا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسلامی معاشرے کی خوبصورتی یہی ہے کہ اقلیتوں کا خیال رکھنا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے میرٹ پر بات کریں کہ غلطی کہاں ہے؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ بتائیں کہ کہاں گواہوں کے بیانات کو ٹھیک نہیں پڑھا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کے بعد وہ سب باتیں آئیں گی کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسلام کہتا ہے کہ سچی گواہی دو چاہے اپنے عزیز و اقارب کے خلاف بھی ہو۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر ہم نے شہادتیں ٹھیک نہیں پڑھیں تو فورا درست کریں گے۔ وکیل نے کہاکہ فیصلے میں لکھا ہے کہ خواتین گواہان نے کہا کہ
انہیں نہیں پتہ آسیہ کس سے بات کر رہی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں بھی تو یہی لکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کہتے ہیں کہ آسیہ بی بی 25 لوگوں کو مخاطب کرکے کہہ رہی تھی، کیا وہ کسی جلسے سے خطاب کر رہی تھی ۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر کے سامنے خواتین گواہان نے کہا کہ ان کے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس میں اتنے سچے گواہ نہیں تھے جتنے ہونے چاہئیں تھے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر کہتا ہے کہ
خواتین گواہان نے بیان بدلے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیشی افسر اور گواہان کے بیان میں فرق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ فالسہ کھیت کا مالک عدالت میں بیان کیلئے آیا ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کہتا ہے کہ 342 کا بیان نہیں ریکارڈ کرایا تو بیان کی کوئی حیثیت نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایس پی نے جب تفتیش شروع کی تو تب فالسہ کھیت کا مالک آیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ تفتیش کے 20 دن بعد یہ میدان میں آیا،اس کے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ
کیا کوئی بات ہم نے ریکارڈ کے خلاف لکھی ہے ؟مدعی قاری محمد سلام نے اپنے بیانات بدلے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قاری سلام کہتا ہے افضل نے اسے اطلاع دی، افضل حلف اٹھا کر کہتا ہے کہ یہ اس کے گھر آئے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم کچھ نہیں کہتے ہی سب مذہبی لوگ ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ قاری صاحب کہتے ہیں کہ 5 دن غور کرتے رہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ فوجداری قانون میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شکوک و شبہات شروع ہوجاتے ہیں۔ وکیل قاری سلام نے کہا کہ
مدعیوں کی جانب سے آسیہ کو کسی بدنیتی کی وجہ سے ملوث نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہاکہ جن خواتین نے ابتدائی الزام لگایا وہ قاری صاحب کی بیگم سے قرآن پرھتی ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ قاری صاحب ایف آئی آر درج کروانے کیلئے 5 دن کیوں سوچتے رہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 5 دن میں قاری صاحب نے ایک وکیل سے درخواست لکھوائی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قاری صاحب کہتے ہیں کہ وہ وکیل کو نہیں جانتے۔چیف جسٹس نے قاری سلام کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ
کہیں وہ وکیل صاحب آپ ہی تو نہیں تھے۔چیف جسٹس نے کہاکہ قاری سلام کے بیان کے مطابق گاؤں والے اکھٹے ہوئے پھر ایف آئی آر درج ہوئی۔چیف جسٹس نے کہاکہ گواہوں کے بیانات میں کہیں مجمع اکھٹا ہونے کا ذکر نہیں ۔چیف جسٹس نے کہاکہ مجمع اکھٹا ہونے کے بارے میں بہت زیادہ جھوٹ بولا گیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اگر عام مقدمہ ہوتا تو گواہان کے خلاف مقدمہ درج کرواتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے بہت زیادہ تحمل سے کام لیا ۔چیف جسٹس نے قاری سلام کے وکیل سے
مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کہتے ہیں قابل اعتبار گواہ تھے ان کے بیانات پر پھانسی لگا دینی چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ گواہوں کے بیانات کی حیثیت بھی تو دیکھیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ جھوٹی شہادت پر کہتے ہیں پھانسی لگا دیں کسی کو۔ وکیل قاری سلام نے کہاکہ بیانات میں تھوڑا فرق۔ چیف جسٹس نے کہاکہ فرق۔۔۔؟ یہ جھوٹ ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ قاری سلام نے حلف پر جو بیان دیا وہ پہلے بیان سے مختلف تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا مدعی ہے جس کو یہ نہیں پتہ کہ
اس کی درخواست کس نے لکھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قاری صاحب کو تو براہ راست بچیوں نے نہیں بتایا ہوگا۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ پھر ان کو کیسے پتا چلا کہ یہ الفاظ کہے گئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا اسلام کی یہ تصویر پیش کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس طرح کے گواہ ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ سب گواہان کے بیانات میں واضح تضادات ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ اور آپ سارا پاکستان بلاک کردیتے ہیں کہ ہماری بات کیوں نہیں مانی گئی؟
چیف جسٹس نے کہاکہ الزام لگاتے ہیں کہ ایسے لوگ ہیں کہ بری کردیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اپنے گریبان میں بھی تو جھانکیں کیس کیا بنایا ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ مقدمے کی حساسیت کا خیال کیا، ورنہ جھوٹی گواہی پر گواہوں کو اندر کرتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ اگر انصاف کردیا تو واجب القتل ہوگئے؟ یہ ہے اسلام۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جو قاضی کہے کہ یہ شہادت قابل اعتبار نہیں تو اس قاضی کا فیصلہ آپ کو منظور نہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیوں کہ فیصلہ آپ کی مرضی کا نہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ بتائیں فیصلے میں کیا غلطی ہے؟۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیس کی دوبارہ سماعت نہیں کر رہے،ان کی تسلی کیلئے سن رہے ہیں جنہوں نے بغیر پڑھے فتوے جاری کیے۔چیف جسٹس نے قاری سلام کے وکیل سے مکالہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ فیصلے میں ایک بھی غلطی نہیں بتاسکے،آپ کو فیصلے میں عام باتوں پر اعتراض ہے فیصلے پر نہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ بتائیے جھوٹے گواہان کے خلاف کیا کرنا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق سمری ٹرائل کے ذریعے عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایسے کیس میں جھوٹی گواہی دی جس میں سزائے موت ہو سکتی ہے،سزائے موت ہوئی بھی ہے۔بعد ازاں دلائل سننے کے بعد کورٹ آف پاکستان نے آسیہ بی بی کی بریت کیخلاف نظر ثانی درخوست مسترد کر تے ہوئے آسیہ بی بی کی بریت کا فیصلہ برقرار رکھا ہے ۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسی اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے نظرثانی اپیل پر فیصلہ سنایا۔آسیہ بی بی کی سزا کالعدم قرار دینے اور رہائی کے خلاف قاری محمد سلام نے عدالت عظمیٰ میں نظر ثانی اپیل دائر کی تھی۔