لاہور (وائس آف ایشیا)ساہیوال میں دو روز قبل سی ٹی ڈی کی مبینہ کارروائی میں چار افراد ہلاک ہوئے جن کی شناخت خلیل، نبیلہ، اریبہ اور ذیشان کے نام سے ہوئی تھی۔ فائرنگ کے دوران ایک بچہ گولی لگنے اور ایک بچی شیشہ لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے خلیل اور نبیلہ بچ جانے والے تین بچوں کے والدین تھے جبکہ اریبہ ان بچوں کی بڑی بہن تھی جو ساتویں جماعت کی طالبہ تھی۔
اور ان کے ساتھ موجود ذیشان ان کا محلے دار تھا ، ذیشان بطور ڈرائیور خلیل کے خاندان کے ساتھ گیا جسے سی ٹی ڈی نے دہشتگرد قرار دے رکھا ہے۔ سانحہ کے مقتول جوڑے کی بیٹیاں گھر پہنچیں تو ان کا پہلا سوال یہی تھا کہ ماما کہاں ہیں؟ پاپا کیوں نہیں آئے؟ معصوم کلیوں کے اس سوال پر وہاں موجود ہر شخص آبدیدہ ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ کون ان ننھے بچوں کا سہارا بنے گا ؟ کون ان کے والدین کی کمی پوری کرے گا ؟ کون ان کے آنسو پونچھے گا؟ حکومت نے بچوں کی کفالت کا ذمہ اْٹھانے کا اعلان تو کیا لیکن افسوس تاحال کسی نے بھی مقتول کے اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔مقتول خلیل کے بھائی نے بھی حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی اور کہا کہ حکومت نے ہم سے رابطہ کرنے کے دعوے کیے ہیں لیکن درحقیقت ہم سے کسی نے کوئی رابطہ نہیں کیا نہ ہی کوئی ہمارے پاس آیا ، ہم اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو لاہور کے جنرل اسپتال لائے جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔ مقتول خلیل ، اہلیہ اور بیٹی کی موت کا سن کر خلیل کی والدہ بھی چل بسیں ، ایک گھر سے چار جنازے اْٹھے تو کہرام مچ گیا۔سی ٹی ڈی کی اس بہیمانہ کارروائی پر کئی شکوک و شبہات اْبھر کر سامنے آئے ہیں تاہم واقعہ پر تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی تحقیقات مکمل کر کے رپورٹ ممکنہ طور پر کل اعلیٰ حکومتی نمائندوں کو پیش کرے گی۔ ابتدائی تحقیقات میں سی ٹی ڈی کے افسران کو ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جس کے بعد خیال کیا جا رہا ہے کہ سی ٹی ڈی کے کئی افسران کو عہدے سے ہٹا دیا جائے گا۔