اسلام آباد(آن لائن) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے فیلڈ دفاتر کی جانب سے غیر قانونی طور پر مختلف اشیاء پر سیلز ٹیکس زیرو ریٹ کر کے قومی خزانے کو 8ارب 5کروڑ 83 لاکھ روپے سے زائد روپے کا نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوا ہے ۔آڈٹ دستاویزات کے مطابق ایف بی آر کے 6فیلڈ دفاتر میں رجسٹرڈ 8افراد نے سال2013۔14میں قابل ٹیکس اشیاء4 سپلائی کیں مگر نہ تو ان اشیاء4 پر سیلز ٹیکس وصول کیا گیا
اور نہ ہی ایف بی آر کو سیلز ٹیکس کی مد میں کوئی ادائیگی کی گئی۔ ایف بی آر کے متعلقہ حکام نے ملی بھگت سے ان اشیاء4 کو زیرو ریٹ قرار دے کر ان افراد کو سیلز ٹیکس کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دے دیااور زیرو ریٹ کرنے کے لیے مطلوبہ شرائط اور قانونی تقاضوں کو بھی پورا نہیں کیا گیا، جس سے قومی خزانے کو سیلز ٹیکس کی مد میں 8 ارب 5 کروڑ 83 لاکھ روپے سے زائدکا نقصان پہنچا۔ سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 کی دفعہ 4 اور کئی ایس آر اوز کے تحت کچھ مخصوص اشیاء4 کی سپلائی پر سیلز ٹیکس زیرو ریٹ ہو گا ، تاہم اس کے لیے مطلوبہ شرائط اور قوانین پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔ اس معاملے میں ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس آفس (آر ٹی او) گجرانوالہ نے ایک کیس میں سیلز ٹیکس ایکٹ 1990کی دفعہ 3اور ایس آر او نمبر 509(1)2007کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپلائیز کو زیرو ریٹ قرار دیا جس سے قومی خزانے کو 53کروڑ31لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔آر ٹی او2 لاہورنے ایک الگ معاملے میں ایس آر او549(1)2008کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سپلائیز کو زیرو ریٹ قرار دیتے ہوئے قومی خزانے کو ایک کروڑ55لاکھ روپے کے ممکنہ سیلز ٹیکس سے محروم کر دیا۔ایل ٹی یوکراچی نے دو مختلف معاملوں میں سیلز ٹیکس ایکٹ1990کی دفعہ4(b)کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی خزانے کو 7ارب 47کروڑ 56لاکھ روپے سے سیلز ٹیکس سے محروم کیا۔ آر ٹی او2کراچی نے دو الگ الگ کیسوں میں ایس آر او607(1)2013، ایس آر او863(1)2007اور ایس آر او500(1)2013کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی خزانے کو 68لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔
آر ٹی اور3کراچی نے ایک معاملے میں ایس ٹی جی او نمبر3کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی خزانے کو سیلز ٹیکس کی مد میں 87لاکھ روپے سے زائد، جبکہ آر ٹی او حیدرآباد نے ایس آر او 549(1)2008کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک فرد کو سپلائیز کی مد میں سیلز ٹیکس زیرو ریٹ کر کے قومی خزانے کو ایک کروڑ79لاکھ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ آڈیٹرز کے استفسار پر ادارے نے بتایا کہ ساڑھے آٹھ ارب روپے میں سے 5لاکھ
روپے کی وصولی کی جا رہی ہے، 55کروڑ10لاکھ روپے متنازعہ ہیں، 7ارب47کروڑ56لاکھ روپے کے معاملات عدالتوں میں ہیں، جبکہ بقیہ معاملات پر آڈٹ ٹیم کو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس معاملے پر ڈی اے سی نے ایف بی آر کو وصولیوں اور تنازعات کے جلد خاتمے اور عدالتوں میں موجود کیسوں کی پیروی کی ہدایت کرتے ہوئے ادارے کو ایک ماہ کے اندر رپورٹ دینے کا حکم دیا۔ آڈیٹر جنرل نے اپنی رپورٹ میں چوری شدہ ٹیکس کی فوری وصولی اور ذمہ دار اہلکاروں کے تعین اور ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔