اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)معروف صحافی و کالم نگار محمد عرفان صدیقی اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ وہ نوے کی دہائی کا آغاز تھا ۔کراچی میں بڑی تعداد میں بنگالی اور افغان شہریوں کی غیر قانونی آمد بڑھ چکی تھی۔ میری رہائش کراچی کے ایک متوسط علاقے میں تھی تاہم کچھ دنوں سے وہاں بنگالی شہریوں کی آمد بڑھ گئی تھی، علاقے کی مسجد میں بھی بنگالی موذن ذمہ داریاں سنبھال چکے تھے
مزید کچھ عرصہ گزرا تو ہمارے علاقے سے متصل نسبتاًغیر آباد جگہ بنگالی شہریوں نے اپنی بستی بنانا شروع کردی اور پھر کچھ عرصے بعد بنگالیوں کا وہ علاقہ بنگالی پاڑے کے نام سے مشہور ہوگیا اور وہاں بنگالی مارکیٹ بھی بن گئی تھی ۔ اسی دور میں کراچی میں اکثر بس اسٹاپ پر گنے کا رس بنگالی فروخت کیا کرتے تھے جبکہ مرغیوں کی دکانوں پر بھی بنگالی ہی نظر آیا کرتے تھے یہ تمام بنگالی غیر قانونی طور پر آباد ہوئےتھے ۔ میرے والد مچھلی کھانے کے شوقین رہے ہیں لہذا ہر اتوار کو میں بھی اپنے والد کے ساتھ بنگالی مارکیٹ سے مچھلی کی خریداری کے لیے جایا کرتا تھا ۔بنگالی شہریوں اور بنگلہ دیش کے حوالے سے اس وقت میری معلومات صرف اتنی ہی تھیں کہ اکہتر میں بھارت کے ساتھ ہونے والی جنگ میں بھارت مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے میں کامیاب ہوا ۔ جس دکان سے والد صاحب مچھلیاں خریدتے وہ ایک بنگالی کی دکان تھی وہاں ایک سیلز مین ہوا کرتا تھا مجھے وہ بنگالی نہیں لگتا تھا لیکن اس کی رہائش اسی بنگالی پاڑے میں تھی اور وہ بھی بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پرکراچی پہنچا تھا ۔ ایک روز میں نے اس سیلز مین سے پوچھ ہی لیا کہ آپ کا حلیہ بنگالیوں جیسا نہیں ہے تو آپ کیوں اس بنگالی پاڑے میں رہائش پذیر ہیں اور ایک بنگالی کے پاس ملازمت کرتے ہیں ، اس نے مجھے دیکھے بغیر مچھلیوں پر پانی ڈالتے ہوئے
کہا بھائی میں بنگالی نہیں،بہاری ہوں اور بنگلہ دیش کے محصورین کیمپ کا رہائشی ہوں۔ میرے اہل خانہ آج بھی اس کیمپ میں مقیم ہیں شاید چڑیا گھر کے جانوروں کو بھی ہم سے زیادہ سہولتیں حاصل ہوں لیکن ہمیں نہ پاکستان قبول کرتا ہے اور نہ ہی بنگلہ دیش ۔ہماری ایک کمرے کی جھونپڑی میں آٹھ افراد رہائش پذیر ہیں والدین ،بڑے بھائی ان کی بیوی بچے، میں او ر میری بہن۔ میںاس دڑبہ نما کھولی
سے نکلنا چاہتا تھا ۔ میں کیمپ سے نکلا بھاگ دوڑ کی نہ جانے کیا کیا جتن کرکے ایک ایجنٹ کو پیسے دیکر پاکستان پہنچا۔سمجھا تھا کہ جس ملک کے نام پر میرے والدین اپنی زندگی کیمپوں میں گزار رہے ہیں وہاں عزت اورپناہ ملے گی وہاں پہنچ کر کوئی فریاد سننے والا بھی نہ ملا۔ مد د بھی کی تو ایک بنگالی نے کی اس نے بنگالی پاڑے میں اپنے گھر پر رکھا ، ملازمت دی ۔
اب یہاں ہی زندگی گزر رہی ہے والدین کو کبھی کبھار چند سو روپے بھیج دیتا ہوں مستقبل کا کچھ علم نہیں کیا ہو گا۔سولہ دسمبر کی آمد تھی ہر سال کی طرح اس سال بھی مجھے امریکہ میں مقیم محصورین پاکستانیوں کے لیے زندگی وقف کردینے والے پاکستانی احتشام ارشد نظامی کا پیغام موصول ہوا کہ اس مسئلے کے لیے آواز بلند کرنی ہے لیکن میں بھی ان کی سنجیدگی اور اپنی بے بسی پر
دل ہی دل میں مسکرا کررہ گیا کہ یہاں ہماری فریاد کون سننے والا ہے ۔ محصورین پاکستان کا مسئلہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ مسئلہ ہے ان غریب اور مسکین پاکستانیوں نے اپنے ملک پاکستان کے لیے پہلے پاکستانی فوج کے ساتھ ملکر مشرقی پاکستان کا دفاع کیا ، اپنے وطن کے لیے جانیں، ماں بہنوں کی عزتیں گنوائیں ، اپنے گھر اور اپنی دولت بھی گنوائی اور باوجود پیشکشوں کے بنگلہ دیش کی
شہریت بھی ٹھکرائی۔ صرف اس امید پر کہ کبھی ان کے ملک کے حکمرانوں کو اپنے ان بے بس پاکستانی بھائیوں اور بہنوں پر رحم آجائے جنھوں نے قربانی کی وہ مثال قائم کی جس کی نظیر نہ ماضی میں اور نہ مستقبل میںکبھی مل سکے گی ۔لیکن ماں جیسی ریاست کو اپنی اولادیں یاد نہ رہیں، حکومت اپنے شہریوں کو بھول گئی۔ ہمارے وزیر اعظم عمران خان تیس لاکھ افغانیوں کی میزبانی کی توبات کرتے ہیں لیکن اپنے محصورین پاکستانیوں کوواپس لانے کی بات نہیں کرتے۔سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں محصورین کے نام پر سیمینار کرتی ہیں ،فنڈز بھی جمع کرتی ہیں لیکن ان کی واپسی کے لیے لائحہ عمل اختیار نہیں کرتیں ۔