اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان میں اخبارات دھڑا دھڑ بند ! ہزاروں لوگ بے روز گار ، جاری اخبارات بھی سٹاف کی چھانٹی کر نے لگے، ضخیم شمارے انتہائی کم صفحات کے ہو گئےہیں۔ نجی ٹی وی پروگرام میں معروف صحافی و پروگرام کے میزبان کامران خان نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ پاکستان میں جہاں الیکٹرانک میڈیا مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے مگر اخباری صنعت
اس وقت شدید مالی بحران سے دوچار ہو چکی ہے، پرنٹ میڈیا کا شمار اب بیمار صنعتوں میں کیا جا سکتا ہے، دو چار صفحات پر مشتمل دوسرے درجے کے شام کے اخبارات اب اخباری صنعت کے نامی گرامی گروپس کے مختلف شہروں میں اردو ، انگریزی کے ایڈیشن دھڑا دھڑ بند ہو رہے ہیں گویا کہ اخبارات کے بند ہونے کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہے، تین روز قبل جنگ گروپ کے چھ اخبارات کو بند کیا گیا جس کے بعد 500صحافتی اور اخباری کارکنوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔ بند کئے جانے والے اخبارات میں روزنامہ عوام، ڈیلی نیوزکراچی، آواز لاہور، جنگ پشاور، جنگ فیصل آباد کے ایڈیشن شامل ہیں، روزنامہ انقلاب اور وقت اخبار بھی بند کر دیا گیا ہے، اسلام آباد سے جاری ہونیوالے اخبار وفاق کو بھی بند کیا گیا ہے۔ جبکہ انگریزی ہفت روزہ میگ کی بندش کی بھی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ صرف جنگ گروپ ہی نہیں بلکہ ایکسپریس گروپ نے بھی اپنا شام کا اخبار انصاف ٹائمز بند کر دیا ہے، روزنامہ ایکسپریس نے کوئٹہ اور ملتان سے اپنی اشاعت بند کر دی ہے۔ شام کے دوسرے اخبارات جیسے سٹار اور لیڈر بھی بند ہو چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ڈان گروپ جیسا ادارہ نیوز میگزین ’’ہیرالڈ‘‘کو بند کرنے پر مجبور ہے اور کہا گیا ہے کہ جنوری کا شمارہ شاید ’’ہیرالڈ‘‘کا آخری شمارہ ہو گا۔ 30، 30صفحات پر مشتمل ضخیم شمارے اور اخبارات، 4
یا 6صفحات پر مشتمل پرچوں میں بدل چکے ہیں، اس کی وجہ سے اخباری صنعت سے وابستہ ایڈیٹرز، رپورٹرز، پروف ریڈرز، پرنٹنگ پریس کے عملے بلکہ ہاکرز تک کیلئے مشکل صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ بلاشبہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے بہت سے لوگ اخبارات پڑھنے کی لت سے دور ہو گئے ہیں۔ چند برسوں سے اخباری قارئین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے اور اخبارات کی بندش کے بعد اخباری اداروں میں صحافتی و اخباری کارکنوں کی برطرفیوں کا عمل اب جاری ہے۔ جہاں ایک طرف میڈیا کی صنعت کیلئے یہ وقت بہت برا ہے وہاں دنیا بھر میں عمومی طور پر یہ وقت پرنٹ میڈیا کیلئے انتہائی مشکل اور نامساعد ہے۔