کراچی (نیوز ڈیسک) درخشاں انویسٹی گیشن پولیس نے معصوم لڑکیوں سے شادی کرکے انھیں بیرون ملک اسمگل کرنے والے چار انجینئر بھائیوں اور ان کی ماں کو گرفتار کر لیا ہے، گزشتہ پانچ سال سے ملزمان یہ کام کر رہے تھے اور اب تک کئی لڑکیوں کی زندگیاں تباہ کر چکے ہیں، ملزمہ کا بھائی آفاق سعودی عرب میں رہتا ہے،گروہ کا ایک کارندہ دبئی میں لڑکیوں کے لیے ویزے اور رہائش کا بندوبست کرتا ہے۔
ایس ایس پی انویسٹی گیشن جنوبی طارق دھاریجو کا کہنا ہے کہ ملزمہ قدسیہ اور اس کے بیٹے فرخ، فہیم، فہد اور اعلیٰ کے خلاف مقدمہ درج کرایا گیا تھا، ان کے خلاف دی گئی درخواست میں مدعی کا کہنا تھا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی قدسیہ کے بیٹے فرخ سے کرائی تھی، بیرون ملک اس کی بیٹی پر انسانیت سوز ظلم کیا گیا اور اس نے بڑی مشکل سے گھر والوں سے رابطہ کیا، مدعی کا کہنا ہے کہ ہم نے قدسیہ سے رابطہ کرکے بڑی مشکل سے اپنی بیٹی واپس بلائی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے بتایا کہ پہلے قدسیہ اور پھر اس کی نشاندہی پر اس کے چاروں بیٹوں کو ناظم آباد سے گرفتار کیا گیا جو پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں۔ واضح رہے کہ کراچی کی مقامی عدالت نے شادی کرکے بیرون ملک لڑکیوں کو فروخت کرنے الزام میں گرفتار خاتون کی ضمانت منظور کرلی۔درخشاں پولیس کی جانب سے ملزمہ قدسیہ کو جوڈیشل مجسٹریٹ ساتھ کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں ملزمہ کی جانب سے دائر کی گئی درخواست ضمانت عدالت نے تیس ہزار کے عوض منظور کرلی۔ درخشاں پولیس نے ثمرہ نامی خاتون کی درخواست پر ملزمہ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا مدعی ثمرہ کا مقدمہ میں موقف ہے کہ ملزمہ قدسیہ لڑکیوں کی اپنے بیٹوں سے شادی کرانے کے بعد بیرون ملک لے جاکر فروخت کرتی تھی،ملزمان میرج بیوروز کے ذریعے پوش علاقوں میں مال دار فیملی لڑکیاں تلاش کرتے، ملزمان رشتے کے جھانسے میں آئی لڑکی سے شادی کرتے۔
شادی کے بعد لڑکی کا پاسپورٹ رینیو کرایا جاتا اور اسے دبئی روانہ کردیا جاتا تھا، دوبئی میں ملزمان کا ایک عزیز انہیں وہاں ریسیو کرتا اور رہائش کا بندوبست کراتا، دبئی پہنچنے والی کو وہاں کمائی کا دھندا بنادیا جاتا ،،ملزمان کا یہ گھنانا دھندا گزشتہ پانچ سال جاری تھا، ملزمان طے شدہ شرائط پر شادی کرتے، اگر کسی صورت ان کی چنگل میں آئی لڑکی کسی صورت بچ نکل جاتی تو ملزمان طلاق نہیں دیتے ،ملزمان چنگل سے نکل جانے والی لڑکی کو خلع لینے پر مجبور کرتے، لڑکی کے خلع مانگنے کی صورت میں ملزمان کچھ بھی واپس کرنے کے پابند نہیں رہتے تھے۔