اسلام آباد(اے این این ) قومی احتساب بیورو(نیب)نے 148 ارب روپے کے کراچی-لاہور موٹروے(کے ایل ایم)منصوبے کا ٹھیکہ دینے میں بے قاعدگیوں کی تصدیق سے متعلق انکوائری مکمل کرکے کیس کو تحقیقات کے اگلے مرحلے میں بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ نیب ذرائع نے بتایا کہ تفتیش کاروں کو یہ معلوم ہوا کہ 2015 میں مسلم لیگ (ن)کی حکومت کی جانب سے ٹھیکہ دینے میں قواعد و ضوابط کی کچھ خلاف ورزیاں کی گئیں۔
نیب کے مطابق رواں سال مارچ میں کراچی – لاہور موٹروے کے 230(کلو میٹر)کے عبدالحکیم سیکشن کے لیے غیر قانونی طور پر ٹھیکہ دینے کے باعث قومی خزانے کو مبینہ طور پر 14 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیاجس کے بعد باضابطہ طور پر اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔خیال رہے کہ اگست 2015 میں ایک مقامی کمپنی زیڈ کے بی اور چینی کمپنی ریلوے-20 بیورو گروپ کارپوریشن کو مشترکہ طور پر اس منصوبے کے ٹھیکے سے نوازا گیا۔انکوائری کو تحقیقات کے اگلے مرحلے میں بھیجنے کے فیصلے کے ساتھ نیب نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے اس دعوے کو بھی مسترد کردیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کے دور حکومت میں کرپشن کا کوئی ایک کیس بھی نہیں ہوا۔واضح رہے کہ عام طور پر نیب کسی بھی کیس میں اس وقت انکوائری کا حکم دیتا ہے جب شکایت کی تصدیق کے عمل کے دوران کرپشن کے کچھ معتبر ثبوت ملیں اور اگر انکوائری میں کچھ غلط پایا جاتا ہے تو وہ اس معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا جاتا ہے، تحقیقات کے بعد نیب ریفرنس تیار کرتا ہے اور ٹرائل کے لیے اسے احتساب عدالت میں دائر کردیتا ہے۔تاہم اس وقت نیب راولپنڈی اس کیس کی تحقیقات کر رہا ہے اور ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اسے ریجنل بورڈ کے اجلاس کے سامنے پیش کرے گا اور اس کے بعد رسمی طور پر تحقیقات میں منتقلی کے لیے اسے ایگزیکٹو بورڈ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نیب کی جانب سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی(این ایچ اے)کے سابق چیئرمین شاہد اشرف تارڑ اور منصوبے کے ٹھیکیداروں کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔نیب کے مطابق این ایچ اے افسران اور ٹھیکیداروں کے خلاف انکوائری ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل (ٹی آئی)کی شکایت اور اس کی تصدیق کے عمل کے دوران کچھ ثبوت جمع کرنے کی بنیاد پر شروع کی گئی تھی۔نیب حکام کا کہنا تھا کہ انکوائری کے دوران کرپشن کے ٹھوس ثبوت ملنے کے بعد ہم نے اسے تحقیقات میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر معمولی ریٹ پر ٹھیکہ دینے کے لیے قوانین کی خلاف ورزی پر این ایچ اے انتظامیہ کے خلاف انکوائری کا حکم دیا گیا تھا۔خیال رہے کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے 2 سال قبل شکایت درج کروائی تھی لیکن مبینہ طور پر نواز شریف کے کافی قریب ساتھی اور سابق چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا لیکن نیب کے موجودہ چیئرمین جسٹس (ر)جاوید اقبال نے اس کیس میں تحقیقات کا حکم دیا۔این ایچ اے کی جانب سے اگست 2015 میں کامیاب بولی میں سنگین کوتاہیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹھیکہ دیا تھا۔
یہ بھی خیال کیا جارہا تھا کہ اگر پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروجیکٹ کے ذریعے فنڈڈ ہونے والے اس منصوبے کو میرٹ اور بڈرز کی ہدایت کے مطابق دیا جاتا تو این ایچ اے 24 ارب روپے بچا سکتا تھا۔دوسری جانب نیب نے 148 ارب روپے کے کراچی – لاہور موٹروے کے عبدالحکیم سیکشن اور 2 سو 59 ارب روپے کے ملتان – سکھر موٹروے منصوبوں کے کیسز کو ضم کردیا۔واضح رہے کہ نیب کو یہ معلومات ملی تھیں کہ ٹھیکہ حاصل کرنے والی چینی کمپنی کو ڈیوٹی فری مشینری اور سیمنٹ درآمد کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
اسی طرح پاکستان میں لوہے کی فی ٹن قیمت 90 ہزار روپے تھے لیکن اسے چین سے ڈیڑھ لاکھ روپے فی ٹن پر درآمد کیا جارہا تھا۔اس حوالے سے جب زیڈ کے بی کمپنی کے مالک حاجی ظہیر خان سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں اس بارے میں علم نہیں کہ نیب نے انکوائری کو تحقیقات میں بدل دیا، ساتھ ہی انہوں نے دعوی کیا کہ ان کی کمپنی نے کوئی بے قاعدگی نہیں کی۔