اسلا م آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار مظہر برلاس اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ ہال سے باہر لاہور ہائیکورٹ کے احاطے میں درختوں کے سائے دراز ہو رہے تھے اور ہال کے اندر قانون کی حاکمیت کے قصے دراز ہو رہے تھے اور مجھے اس ماحول میں راؤ نوید رشید ایڈووکیٹ بہت یاد آ رہا تھا جس سے میری گیارہ دسمبر کی دوپہر اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی۔ میں اپنے دوست نعیم گوندل ایڈووکیٹ کو ملنے گیا تو وہاں راؤ نوید مٹھائی لے کر آ گیا،
وہ بہت خوش تھا اور عمران خان زندہ باد کے نعرے لگا رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے حیرتوں کا ہجوم کھڑا تھا کہ آج ایک جیالا کیوں عمران خان زندہ باد کے نعرے لگا رہا ہے؟ وہ راؤ نوید جو پیپلز پارٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا، آ ج کیسے پی ٹی آئی کی حمایت پہ اتر آیا ہے؟ راؤ نوید رشید سپریم کورٹ کا وکیل ہے ، اسلام آباد میں پریکٹس کرتا ہے ، اس کی پیپلز پارٹی سے بڑی گہری اور دیرینہ وابستگی تھی، اس نے مرتضیٰ بھٹو شہید کے 84مقدمات کو ایک جگہ پر لا کر نہ صرف اکٹھا کیا بلکہ جیتا، ان مقدمات میں مرتضیٰ بھٹو کی سزائے موت کا مقدمہ بھی شامل تھا۔ راؤ نوید کی ساری زندگی بھٹو کی دیوانگی میں گزری، وہ ہر وقت بھٹو کے نام پر مرنے مارنے کے لئے تیار رہتا تھا۔ یہ تمام باتیں میرے ذہن میں تھیں کہ میں نے راؤ نوید سے پوچھ ہی لیا کہ آج آپ کو کیا ہو گیا ہے، آج آپ کیوں عمران خان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، آخر ایسا کونسا انقلاب آ گیا ہے کہ آپ بدل گئے ہیں؟میرے سوالوں کے جواب میں راؤ نوید رشید بولا ’’میں عمران خان کے نعرے نہ لگاؤں تو پھر کس کے لگاؤں، اس نے میرا وہ کام کیا ہے جس کے لئے میں رُل گیا، اس نے میری زندگی بدل دی ہے، واقعی تبدیلی آ گئی ہے، میرا باپ ہائی کورٹ کا وکیل تھا، آج سے بیس برس پہلے محکمہ مال نے ہیرا پھیری کی اور ہماری زمین کسی اور کے نام منتقل کر دی، قبضہ مافیا ہماری زمین پر قابض ہو گیا، ہم مقدمہ لڑتے رہے،
سترہ سال بعد بھکر کی سول عدالت نے مقدمہ ختم کیا تو قبضہ مافیا نے اراضی چھوڑنے سے انکار کیا، ہماری فائل ہی غائب کر دی جاتی تھی، محکمہ مال کی ان ہیرا پھیریوں سے تنگ آ کر میں ہائی کورٹ چلا گیا، لاہور ہائی کورٹ نے 2011ء میں ڈگری جاری کر دی مگر یہ ڈگری مجھے قبضہ نہ دلوا سکی، اس ڈگری پر عملدرآمد نہ ہو سکا، میں بھکر جاتا مگر ناکام لوٹ آتا، ڈی سی مجھے اپنے آفس میں گھسنے نہیں دیتا تھا چونکہ میری زمین پر ایک ایم این اے قابض تھا،
یہ ایم این اے پہلے نواز لیگ کا تھا پھر مشرف دور میں ق لیگ کا رکن بن گیا، آج کل پی ٹی آئی کا ایم این اے ہے۔ جس روز وزیر اعظم عمران خان نے کمپیوٹرائز پورٹل ایپلی کیشن کا افتتاح کیا تو میں نے سوچا کہ اب دیکھتا ہوں کہ کیا وزیر اعظم اپنے ایک ایم این سے میری زمین واگزار کرواتے ہیں یا نہیں، میں نے یہی سوچ کر شکایت کر دی، پورٹل سسٹم کے ذریعے مجھے پتہ چلتا رہا کہ اب میری شکایت پر کس سطح پر عملدرآمد ہو رہا ہے، مجھے خوشگوار حیرت اس وقت ہوئی جب بھکر کا ڈی سی مجھے ڈھونڈ رہا تھا،
میری وہی زمین جس پر قبضہ مافیا قابض تھا، اسے واپس لوٹانے کے لئے بے تاب تھا، وہی ڈی سی آفس جو مجھے اندر نہیں گھسنے دیتا تھا مجھے وہاں سے بار بار فون آ رہا تھا، ٹھیک اکیس دن کے بعد میری شکایت پر میرا مسئلہ حل ہو گیا، میری چار مربع اراضی میرے حوالے کر دی گئی، اب میں خوش ہوں، میرا حق مجھے عمران خان نے دلوایا ہے، میں اس پورٹل سسٹم کا گرویدہ ہو گیا ہوں، میں نے کسی کو ایک روپیہ رشوت نہیں دی اور میرا کام ہو گیا ہے۔ اس سسٹم کا یہ فائدہ ہے کہ سسٹم اس وقت تک افسران کو پریشان کئے رکھتا ہے جب تک شکایت کنندہ یہ جواب نہ دے دے کہ میرا مسئلہ حل ہو گیا ہے، اب میرے بچے بھی خوش ہیں، اب ہم اپنی چار مربع اراضی کاشت کریں گے، ہمارے آنگن میں خوشحالی آئے گی، آپ کو حیرت ہو گی کہ اب تک پورٹل سسٹم کے ذریعے 83ہزار لوگوں کو قبضہ گروپوں سے نجات مل چکی ہے، اب ہم عمران خان زندہ باد نہ کہیں تو اور کیا کہیں، ہمیں ہمارا حق پی ایم پورٹل سسٹم کے ذریعے عمران خان نے دلوایا ہے، میں پہلے جیالا تھا، اب میں پکا کھلاڑی ہوں۔‘‘