اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایک دن ہے اور تین کیسز ہیں، تین شخصیات اور تین کہانیاں ہیں، علیمہ خان کا کیس جس میں ان کو جرمانہ ہوتا ہے، نواز شریف کا کیس ان کو جے آئی ٹی کا سامنا ہوتا ہے اور آصف علی زرداری کا کیس ان کو ایک نیا سوال نامہ دیا جاتا ہے، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے، یہ سوال ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں میزبان نے جسٹس (ر) شائق عثمانی سے کیا،
اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ تینوں بالکل مختلف کیسز ہیں، علیمہ خان کی کیس کی اہمیت اس وجہ سے ہوئی ہے کہ وہ عمران خان کی بہن ہیں ورنہ یہ کیس کب کا اگنور ہو چکا ہوتا، علیمہ خان نے کبھی کوئی پبلک آفس ہولڈ نہیں کیا یقیناً ان کی جائیداد ملک سے باہر تھی، ٹیکسیشن کے مسئلے کی وجہ سے ان کو جرمانہ ہو گیا جو انہیں دینا پڑا، ان سے یہ بھی کہا گیا کہ اگر وہ جرمانہ نہیں دیں گی تو ان کی جائیداد ضبط ہو جائے گی، دوسرا کیس نواز شریف کا ہے اس دن میں کورٹ میں خود موجود تھا، جب چیف جسٹس صاحب نے ان سے پاک پتن والے معاملے پر ان سے پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ کس طرح انویسٹی گیٹ کریں جس پر نواز شریف نے کہا کہ مجھے آپ ٹائم دے دیں میں خود آپ کو بتا دوں گا کہ کیا کرنا چاہیے، اس جے آئی ٹی کے متعلق میاں نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نہیں کہا بلکہ انہوں نے خود اپنے لیے جے آئی ٹی بنوائی ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے پیپلزپارٹی اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کی قیادت کے خلاف پکڑ دھکڑ کو انتہائی گندی انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی احتساب بیورو کٹھ پتلی حکمرانوں کے ہاتھوں میں آلہ کار بن کر رہ گیا ہے، نیب کی جانب سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف کارروائیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاریوں پرغورکے لیے پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماؤں چاروں صوبائی صدور اورپیپلزپارٹی آزاد جموں وکشمیرکے رہنماؤں کا اہم اجلاس پارٹی چئیرمین بلاول بھٹوزرداری کی زیرِ صدارت بلاول ہاؤس میں منعقد ہوا،
جس میں نیب کی جانبدارانہ کارروائیوں کوشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فیصلہ کیا گیا بلاول بھٹو کی بجائے ان کے وکیل سوالنامہ کا جواب داخل کرائیں گے جبکہ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنماؤں نے کہاکہ نیب کٹھ پتلی ادارہ بن گیا ہے جسے حکومت پیپلزپارٹی اوراپوزیشن پارٹیوں کے خلاف آلہ کارکے طورپراستعمال کررہی ہے ۔اجلاس میں 27 دسمبر کو گڑھی خدا بخش کے جلسے کی تیاریوں کا جائزہ بھی لیا گیا۔