لاہور(این این آئی) وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدارنے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت عوام کے ایک ایک پیسے کی حفاظت کرے گی اور جن لوگوں نے اپنے اثر و رسوخ سے ناجائز فائدہ اٹھایا ان سے پائی پائی وصول کریں گے۔پنجاب حکومت نے 100ر وزمیں اپنے راستے کا تعین کرلیا ہے اوراہداف مقرر کرلئے ہیں۔تجاوزات کے خلاف مہم کے دوران بااثر قبضہ مافیا کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی گئی ہے اور اب تک قبضہ گروپوں سے 7 لاکھ 59 ہزار 428 کنال قیمتی
سرکاری اراضی واگزار کرائی جا چکی ہے جس کی مالیت کھربوں میں ہے اور واگزار کرائی گئی اراضی کی مالیت تقریباً پنجاب کے ترقیاتی بجٹ کے برابر ہے اوریہ معمولی رقم نہیں ہے ،تاریخ میں پہلی بار اتنے بڑے پیمانے پر بلاامتیاز کارروائی کی گئی ہے ۔تحریک انصاف کی حکومت نے تجاوزات کے خلاف آپریشن میں کسی سے رورعایت نہیں برتی۔ماضی میں کوئی حکومت قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی نہیں کرسکی۔یہ تحریک انصاف کی حکومت کا کریڈٹ ہے کہ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی بااثر قبضہ مافیا پر ہاتھ ڈالاہے۔وہ 90شاہراہ قائداعظم پرپریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے۔صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت، وزیراطلاعات فیاض الحسن چوہان اورترجمان پنجاب حکومت ڈاکٹر شہبازگل بھی اس موقع پرموجود تھے ۔وزیراعلیٰ نے قابضین سے واگزار کرائی جانے والی اراضی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ لاہورڈویژن میں56ہزار 264 کنال، گوجرانوالہ ڈویژن میں22ہزار788کنال،فیصل آباد ڈویژن میں 1لاکھ36ہزار کنال،راولپنڈی ڈویژن میں 7ہزار 350کنال،ڈی جی خان ڈویژن میں 4لاکھ5ہزار 665کنال،بہاولپور ڈویژن میں 14ہزار563کنال،ساہیوال ڈویژن میں 36ہزار کنال،سرگودھا ڈویژن میں 56ہزار284کنال اورملتان ڈویژن میں 24ہزار کنال اراضی واگزار کرائی گئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ واگزار کرائی گئی اراضی کو متعلقہ سرکاری محکموں نے اپنی ملکیت میں لے لیا ہے اور اس اراضی کا ڈیٹا بینک بنا لیا گیا ہے اور اس کے بہترین استعمال کیلئے تجاویز و سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں جبکہ ضلعی سطح پر انسداد تجاوزات کمیٹیاں بھی قائم کی گئی ہیں۔ ہم نے حتی المقدور کوشش کی ہے کہ اس آپریشن میں غریب لوگوں اور چھوٹے کاروبار کرنے والوں کو تکلیف نہ پہنچے۔ وزیراعلیٰ نے بتایا کہ سابق دور میں وزیراعلیٰ کے جاتی امراء،96ایچ ماڈل ٹاؤن،180ایچ ماڈل ٹاؤن اور41ایس ڈی ایچ اے میں چار مختلف کیمپ آفس تھے۔ہمارے دور میں میرے پاس کوئی کیمپ آفس نہیں ہے۔ سابق دور میں وزیراعلیٰ اوران چار کیمپ آفس کیلئے 2ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکارڈیوٹی دیتے تھے جبکہ اب صرف60 اہلکار سکیورٹی ڈیوٹی پر فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔سابق دور میں جاتی امراء کی سکیورٹی پر 55کروڑ روپے سرکاری وسائل سے خرچ کیے گئے جبکہ ہمارے دور میں اس حوالے سے ایک پائی بھی خرچ نہیں کی گئی۔تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے لیکر اب تک وزیراعلیٰ آفس میں پٹرول کی مد میں 30لاکھ روپے ماہانہ کی بچت کی ہے ۔وزیراعلیٰ نے سابق دور میں پنجاب ہاؤس اسلام آباد کے اخراجات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ سابق حکومت سے منسلک سیاسی ودیگر افراد کے ذمے 6کروڑ 37لاکھ روپے واجب الادا ہیں۔ہم نے پنجاب ہاؤس کے کمروں پر غیر قانونی قابضین کی بکنگ منسوخ کردی ہے اورانہیں نوٹسز جاری کیے ہیں ۔وزیراعلیٰ نے بتایا کہ ڈاکٹر آصف کرمانی کے ذمے64کروڑ96ہزار روپے ، سینیٹر پرویز رشید کے ذمے96لاکھ روپے،سینیٹر مشاہد اللہ کے ذمے 20لاکھ روپے ،انوشہ رحمان کے ذمے23لاکھ روپے ، سابق ایڈوکیٹ جنرل مصطفی رمدے کے ذمے39لاکھ روپے اورزبیر گل کے ذمے24لاکھ روپے کی رقم واجب الادا ہے جبکہ سابق وزیراعظم کے ذاتی مہمانوں کے ذمے1کروڑ روپے سے زائدسرکاری طورپر واجب الادا ہیں۔ وزیراعلیٰ نے انٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب کی جانب سے گزشتہ تین ماہ کے دوران انسداد کرپشن کیلئے کی جانے والی کارروائیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے پچھلے تین ماہ کے دوران 34 ارب روپے کی ریکوری کی ہے۔ ان میں2 ارب سے زائد جرمانوں کی مد میں اور 32 ارب واگزار سرکاری زمین کی مد میں شامل ہے۔ صرف اڑھائی ارب روپے مالیت کی سرکاری زمین سیلانوالی ضلع سرگودھا میں سابق وفاقی وزیر انور عزیز چوہدری سے واگزار کرائی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ کی کارروائی کے دوران کچھ اہم انکشافات سامنے آئے۔اتفاق فاؤنڈری کی انکوائری کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ تقریباً 240 کنال سرکاری اراضی واقع موضع کوٹ لکھپت تحصیل ماڈل ٹاؤن لاہور پر اتفاق فاؤنڈری نے غیر قانونی قبضہ کیا ہوا ہے۔ اس میں 71 کنال زمین وفاقی حکومت کی ہے اور بقیہ زمین صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔ اس معاملے کی مزید تحقیق ریونیو ریکارڈ کی مدد سے کی جا رہی ہے اور جلد ہی مزید حقائق آپ کے سامنے رکھے جائیں گے ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ہربنس پورہ کے علاقے میں سپریم کورٹ نے محمد رمضان بنام چیف سیٹلمنٹ کمشنر کیس میں مورخہ 25 جون 1997 کو حکم جاری کیا کہ 1973 کے بعد اس علاقے میں سرکاری زمینوں کی کی گئی تمام الاٹمنٹ منسوخ تصور ہوگی۔ اس حکم کی روشنی میں بورڈ آف ریونیو نے مورخہ یکم جنوری 1998 کو تمام ایسے انتقالات منسوخ کر دیئے لیکن اس کے باوجود حاجی امتیاز علی ولد محمد لطیف اور سابق وفاقی وزیرخزانہ محمد اسحاق ڈار نے اسلم سابق پٹواری موضع ہربنس پورہ اور نذیر احمد سابق گرداور کی ملی بھگت سے 250 کنال سرکاری زمین جعلسازی کے ذریعے فروخت کردی اور اس زمین کی مالیت لگ بھگ 5 ارب روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں پولیس سٹیشن اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں مورخہ 9 جولائی 2011 کو کیس ایف آئی آر 80/2011 درج کی گئی اور ملزمان نے سیاسی اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اس کیس کو 7 اکتوبر 2011 کو ڈراپ کرا دیا۔ تاہم اس کیس کی دوبارہ تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ 3 ماہ کے دوران لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا پتہ چلایا ہے اور اس غیر قانونی کاروبار میں نہ صرف بااثر سیاسی شخصیات شامل ہیں بلکہ ایل ڈی اے اور متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹیز کے افسران بھی ملوث پائے گئے ہیں اورایڈیشنل ڈی جی ایل ڈی اے کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اسی طرح بحریہ ٹاؤن لاہور کے خلاف 3 کیسز سامنے آئے ہیں۔ پہلے کیس( ایف آئی آر 58/2018) میں بحریہ ٹاؤن نے PCBL کی سرکاری اراضی 47 کنال 15 مرلہ پر غیر قانونی قبضہ کیا اور سیون سٹار ہوٹل، کمیونٹی سینٹر اور دیگر تجارتی مراکز قائم کئے۔ اس زمین کی مالیت 2 ارب 35 کروڑ روپے ہے۔دوسرے کیس میں (ایف آئی آر نمبر 69/2018) میں بحریہ ٹاؤن نے پنجاب اوقاف ڈپارٹمنٹ کی 59 کنال اراضی پر غیر قانونی قبضہ کیا جس کی مالیت ایک ارب 77 کروڑ روپے ہے۔ بحریہ ٹاؤن لاہور نے متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیز بشمول بحریہ آرچرڈ II، III، IV ، آئی کون ویلی وغیرہ ایل ڈی اے کی منظوری کے بغیر شروع کیں اور اس عمل سے سرکاری خزانے کو ایک ارب 12 کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ اس معاملے کی جامع تحقیقات جاری ہیں اور ملزمان کے خلاف قانون کے مطابق سخت کارروائی کی جائے گی۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبے میں بدعنوانی اورکرپشن کو برداشت نہیں کریں گے ۔پنجاب کے عوام کے خون پسینے کی کمائی کا حساب دیں گے بھی اور لیں گے بھی ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ میں مکمل بااختیار وزیراعلیٰ ہوں اوراپنے اختیارات آئین اور قانون کے تحت استعمال کرتا ہوں ۔ایک اورسوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ واگزار کرائی گئی اراضی کے بہترین استعمال کیلئے ڈیٹا بینک بنالیا ہے اوراب اس زمین کی زوننگ ہوگی اورمفادعامہ کے بہترین استعمال میں لائیں گے۔انہوں نے کہا کہ 100روزہ کارکردگی کے حوالے سے پورا پروگرام پیش کیا جارہا ہے اور اس میں میڈیا کو بھی بلائیں گے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پنجاب ہاؤس کے واجبات جس کے بھی ذمے ہیں وہ وصول کریں گے کیونکہ یہ قوم کا پیسہ ہے کسی ذاتی شخص کا نہیں،یہ پیسہ انہیں واپس دینا پڑے گا۔پنجاب میں کرپشن کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہورہی ہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعلیٰ نے بتایا کہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے جلد ہی اچھی خبریں ملیں گی اور وہاں پراگلے مالی سال سے سیکرٹریٹ کام شروع کردے گا۔انہوں نے کہا کہ میں نے وزارت اعلی کا منصب سنبھالنے کے بعد چٹ سسٹم کا خاتمہ کیا اوردفاتر میں اوپن ڈور پالیسی اپنائی ہے ۔میں خود بھی ہفتے میں ایک روز لوگوں سے ملتا ہوں اوران کے مسائل حل کرتا ہوں ۔انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی خدمت کے لئے آئے ہیں اورکوئی چیز ہماری راہ میں حائل نہیں ہوگی،جو فیصلے کیے ہیں ان پر عملدرآمد کرائیں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ پنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز قانون سازی کے حوالے سے 6بل پیش کیے گئے جبکہ میں خودباقاعدگی سے پنجاب اسمبلی جاتا ہوں ۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے انتظامیہ کو متحرک کردیا ہے اورمیں خود پرائس کنٹرول کے حوالے سے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لے رہا ہوں ۔نجی سکولوں کی فیسوں کا جائزہ لینے کیلئے وزیر تعلیم کی صدارت میں کمیٹی قائم کردی گئی ہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ سابق حکومت صرف پل اوراوور ہیڈبرج بناتی رہی ۔غریب لوگوں کے لئے کچھ نہیں کیا ۔ہم نے ان پلوں کے نیچے سونے والے لوگوں کو چھت دی ہے او ر ان کیلئے پناہ گاہ جیسے منصوبے لائے ہیں تاکہ یہ بے آسرالوگوں کو سردیوں میں پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔