اسلام آباد(آن لائن) نیب حکام نے لاہور پارکنگ کمپنی میں کروڑوں روپے کی مالی بدعنوانیاں اور کرپشن کی تحقیقات شرو ع کردی ہیں ، جن میں بدعنوانیوں کی بھرمار سامنے آئی تھی، نیب نے کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کو تحفظ دینے والے کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے خلاف بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں، بورڈ آف ڈائریکٹر میں صحافی اور کالم نکار تجزیہ نگار سلمان غنی بھی شامل ہیں
جو کمپنی کے متعدد سال تک مسلسل بورڈ آف آٖ ڈائریکٹر کے شہباز شریف دور حکومت میں مستقل ممبر رہے ہیں اور مالی مفادات حاصل کر تے رہے ، جس پر ان کیخلاف تحقیقات جاری ہیں، کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے لگژریاں گاڑیاں کرایہ پر حاصل کرنے کی منظوری دی اور لاہور کے مشہور رینٹ اے کار والی پارٹی کو کروڑوں روپے ادا بھی کئے، سلیمان غنی کے علاوہ دیگر ممبران میں کرنل (ر) مبشر، عبداللہ خان سہیل، ڈاکٹر عمر سیف، خواجہ حیدر لطیف، سلیمان غنی، ایم پی اے نسرین نواز، چیف ٹریفک آفیسر رائے اعجاز، سردار نصیر احمد، ایم پی اے کرن ڈار، ایم پی اے رمضان صدیقی بھی شامل تھے، کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر قلب عباسی، جنرل مینجر آغا مامون، شعیب عالم، ریحان وحید اور عثمان بھی انتظامیہ کے ممبران تھے، جنہوں نے کمپنی میں کرپشن اور مالی بدعنوانی کی انتہا کر دی اور قومی فنڈز کو بے دردی کے ساتھ لوٹا اور قومی فنڈز پر اپنی عیاشیوں انتہا کر دی، ذرائع سے حاصل سرکاری دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ لاہور میں168مقامات پر پارکنگ کو بہتر بنانے کیلئے لاہور پارکنگ کمپنی بنائی گئی لیکن کمپنی انتظامیہ اور بورڈ ممبران نے پھر اپنی کرپشن کا اس کمپنی کو آماجگاہ بنا لیا، کمپنی کے ریونیو کا تخمینہ2ارب روپے تھا لیکن کرپٹ افسران نے14کروڑ روپے ہی ریونیو اکٹھا کر سکے باقی فنڈز بورڈ ممبران اور انتظامیہ نے کرپشن کی نذر کر دیئے، کمپنی کے افسران نے بھاری تخوائیں وصول کر کے کمپنی کے مالیاتی امور کو تباہی کے دیائے لا کھڑا کیا ہے،
کمپنی افسران نے لیپ ٹاپ کی خریداری میں مبینہ طور پر 9.4ملین روپے کی مالی بدعنوانی کر رکھی ہے جس کی اعلیٰ پیمانی پر تحقیقات جاری ہیں، یہ خریداری لاہور کی کمپنی (AGCN)کی گئی تھی، غیر ضروری بھرتی کیا گیا سٹاف کو ساڑھے چودہ کروڑ روپے ادا کئے گئے ہیں، کمپنی کے ایم ڈی سابق ڈی سی ناروال کو لگایا گیا جس نے ماہانہ بھاری تنخواہ وصول کرکے کمپنی کا بھٹہ بیٹھا دیا، جبکہ اعلیٰ افسران نے ذاتی استعمال کیلئے لگژریاں گاڑیاں خریدی جس کی اجازت بورڈ آف ڈائریکٹرز نے دی تھی،
اس خریداری میں11.24ملین روپے کی خرد برد سامنے آئی ہے، جبکہ فنانشل کنسلٹنٹ کو غیر دھاندلی طور پر26لاکھ ادا کئے گئے، لاہور میں بعض پارکنگ مقامات کا ٹھیکہ نجی کمپنی کو دیا گیا جس سے94لاکھ روپے وصول ہی نہیں کئے گئے، دستاویزات کے مطابق ڈیلی ویجز سٹاف کے نام پر انتظامیہ نے47کروڑ روپے کمپنی کے اکاونٹس سے نکالے ہیں، جبکہ نجی کمپنی کو لاہور کے اہم مقامات پر پارکنگ نہیں وصول کرائے کے ٹھیکہ میں مبینہ طور پر95کروڑ روپے کی کرپشن سامنے آئی ہے،
یہ نجی کمپنی (AGCN)تھی جس کو کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی آشیرباد حاصل تھی، پارکنگ فیس کی وصول میں مبینی طور پر 15کروڑ22لاکھ کی کرپشن سامنے آئی ہے، جبکہ بعض جگہوں پر پارکنگ فیس وصول ختم کرکے نجی کمپنی کو فائدہ دیا گیا جس سے5کروڑ 28لاکھ کا نقصان ہوا ہے، کمپنی افسران نے روٹری مشین کی تنصیب کے نام پر 7کروڑ 52لاکھ روپے کی مالی بدعنوانی کے مرتکب قرار دیئے گئے ہیں، کمپنی کے افسران اور بورڈ کے ڈائریکٹرز کے استنبول کی سیرسپائے کے نام پر4کروڑ88لاکھ کی خطیر فنڈز اپنی عیاشیوں پر خرچ کئے تھے،
جبکہ لاہور کے مشہور لبرٹی ڈی چوک کی اپ گریڈیشن پر2کروڑ87لاکھ فنڈز ضائع کئے گئے جبکہ جیلانی پارک کے آٹومیشن منصوبہ پر12ملین روپے ضائع کئے گئے، کمپنی کی کرپٹ افسران نے نجی کمپنی (AGCN) 10ارب 68کروڑ روپے کی آمدن کا جھانسہ دے کر کمپنی انتظامیہ سے 12کروڑ وصول کرکے رفوچکر بنی جس میں کمپنی افسران بھی ملوث قرار دیئے گئے ہیں، نیب حکام نے نوٹس میں آیا ہے کہ لاہور میں کارپارکنگ کی فیس 10روپے سے25روپے کی گاڑی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمپنی کی آمدن میں مسلسل کمی واقع ہوئی جس سے کمپنی کو 25ملین روپے کا ٹیکہ لگایا گیا۔