اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نواز شریف کے خلاف نیب کا کیس بنتا ہی نہیں یہ تو سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے ریفرنسز فائل کئے، قانون تمام عدالتوں سے بالاتر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ جومعاملہ سپریم کورٹ کے حکم سے شروع ہوا ہے اس پر رولنگ دے سکے کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ اور احتساب عدالت کے فیصلے کو قانون پر پرکھناہے،
ہائیکورٹ اپنے فیصلے میں لکھ سکتی ہے کہ کیونکہ سپریم کورٹ کے ججز سے قانون کو پرکھنے میں غلطی ہوئی ہے اور معاملہ کیونکہ ہمارے پاس آیا ہے لہٰذا ہم اس کو درست کر رہے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کی سزا کو معطل کردے، معروف ماہر قانون عرفان قادر کی نجی ٹی وی سے گفتگو۔ تفصیلات کے مطابق معروف ماہر قانون عرفان قادر نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ نواز شریف کے خلاف نیب کا کیس بنتا ہی نہیں اور مجھے لگتا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نواز شریف کی سزا کو معطل کر دے۔ نجی ٹی وی ’’دنیا نیوز ‘‘کے پروگرام میں معروف صحافی و اینکر کامران خان نے عرفان قادر سے سوال کیا کہ نواز شریف کے خلاف یہ پہلا موقع ہے کہ نیب عدالت کے علاوہ معاملہ کسی اور عدالت میں آیا ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں معاملے کی نہایت دلچسپ سماعت ہو رہی ہے اور باہر بیٹھے ہم جیسے لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شاید نواز شریف کی ضمانت ہو جائے جس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف کیس نیب کا کیس ہی نہیں ہے، یہ تو سپریم کورٹ نے نیب کو ڈائریکشن دی ہے کہ وہ یہ ریفرنسز فائل کر دے اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پہلی بار اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے خلاف تفتیش بے معنی تھی
کیونکہ ریفرنس فائل کرنے کا فیصلہ پہلے ہو گیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ پہلی مرتبہ خواجہ حارث نے قانونی نکات اٹھائے ہیں جو کہ میری نظر میں براہ راست ہونے چاہئیں ان میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ قانون کسی بھی عدالت سے ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے اونچا ہوتا ہے۔ خواجہ حارث کو براہ راست کہنا چاہئے تھا کہ سپریم کورٹ نے ایک غیر قانونی فیصلہ کیا ہے
جس میں انہوں نے نیب کو احکامات دے دئیے کہ آپ نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز فائل کر دیں۔ اس طرح کا حکم کسی قانون کے تحت نہیں ہو سکتا اور نہ ہی جے آئی ٹی بھی کسی قانون کے نیچے کسی عدالت کو بنانے کا اختیار نہیں بلکہ بہت ساری رولنگ ہیں سپریم کورٹ کی جس میں انہوں نے کہا ہوا ہے کہ نہ تو ہم ٹرائل کورٹ ہیں ، نہ ہی ہم تفتیشی ادارہ ہیں،
نہ سپریم کورٹ تفتیش کر سکتی ہے، نہ سپریم کورٹ تفتیشی ادارو ں کے اختیارات اپنا سکتی ہے۔ یہ تمام ایگزیکٹو اختیارات ہیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ حارث کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں دلائل دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں یہ بات ہونی چاہئے تھی۔ بہرحال شکر ہے کہ خواجہ حارث کی جانب سے پہلی مرتبہ قانونی نکات اٹھائے گئے ہیں جو کہ نہایت سنجیدہ اور سمجھ آنے والے نکات ہیں۔
اس موقع پر کامران خان نے عرفان قادر سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے نیب کو احکامات دئیے کہ ریفرنسز فائل کئے جائیں اور خواجہ حارث نے اپنے دلائل کے دوران بھی یہ کہا کہ نیب نے بھی کہا ہے کہ اس کے پاس ریفرنسز فائل کرنے کے علاوہ کوئی آپشن موجود نہیں تھا، کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ جو معاملہ شروع ہی سپریم کورٹ کے حکم سے ہوا ہے اس پر کوئی رولنگ دے سکے؟
کامران خان کے سوال کا جواب دیتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا کہ جی بالکل اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس اختیار ہے کیونکہ انہوں نے سپریم کورٹ اور احتساب عدالت کے حکم کو قانون پر پرکھنا ہےاور قانون کا جو سیکشن 18نیشنل اکائونٹیبلٹی آرڈر ہے وہ کہتا ہے کہ ریفرنس فائلنگ چیئرمین نیب اس صورت میں کرینگے جبکہ وہ سمجھیں گے کہ یہ بالکل ، باقاعدہ ریفرنس فائل ہونا چاہئے،
یہاں پر شواہد اور ثبوت موجود ہیں اور ان کی اپریز منٹ نیب کریگی سپریم کورٹ اس کی اپریزمنٹ نہیں کر سکتی۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کو دو لفظ لکھنے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان سے یہ غلطی ہوئی ہے قانون میں کچھ اور لکھا ہے اور اب کیونکہ معاملہ ہمارے پاس آیا ہے لہٰذا ہم اس سزا کومعطل کرتے ہیں اور مجھے لگتا ہے کہ کل یہ سزا معطل بھی ہو جائے گی ۔
کامران خان نے اس موقع پر سوال پوچھا کہ نواز شریف کی ضمانت کے بڑے واضح امکانات موجود ہیں کیونکہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ میں موجود جج صاحبان جسٹس گل حسن اورنگزیب اور جسٹس اطہر من اللہ نکتہ بہ نکتہ سوالات کر رہے ہیں اور دیکھنے میں آرہا ہے کہ نیب کا دفاع زیادہ مضبوط نہیں جس پر عرفان قادر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ نیب ہتھیار ڈال چکی ہے
اور نیب نے جب یہ کہہ دیا کہ ان کے پاس ریفرنس فائل کرنے کے علاوہ چارہ نہیں تھا تو وہ تو قبول کر چکے ہیں اس چیز کو ۔ نیب نے قانون کی خلاف ورزی کو قبول کر لیا ہے اور کوئی بھی غیر جانبدار جج اس چیز کا دو سے چار منٹ میں فیصلہ دے سکتا ہے اور مجھے سمجھ نہیں آرہی ہے کہ سماعت کو لمبا کیوں کیا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ کل مکمل ہو جانی چاہئے۔
کامران خان نے عرفان قادر سے سوال کیا کہ دوسرے ریفرنس بھی احتساب عدالت میں سپریم کورٹ کے اسی حکم کے تحت چل رہے ہیں جس کے جج صاحب اب تبدیل ہو چکے ہیں، اگر اسلام آباد ہائیکورٹ یہ فیصلہ دے دیتی ہے تو کیا اس کے اثرات ان دو ریفرنسز پر بھی پڑ سکتے ہیں کیونکہ آپ ایک سٹیٹجک بات کر رہے ہیں جس پر عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر نواز شریف کے خلاف سزا اس نکتہ پر معطل ہو گئی
تو نواز شریف کے وکلا پہلی بار اس حوالے سے مضبوط طریقے سے دیگر دو ریفرنسزکیخلاف دلائل دینگے۔ عرفان قادر کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ نواز شریف کے وکلا نے واضح طور پر موجود قانون جو کتابوں میں بھی واضح طور پر موجود ہے سے متعلق سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور احتساب عدالت میں کیوں نہیں بات کی جبکہ نیب یہ بات قبول کر چکی ہے کہ نواز شریف کے خلاف ریفرنسز فائل کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے حکم دیا جس کے بعد ان کے پاس سوائے یہ کام کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ تاہم پہلی بار خواجہ حارث نے یہ بات کی ہے جس کے بعد اس کیس میں اب کچھ نہیں رہ جاتا۔