اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این ایز اور ایم پی ایز اپنے دلوں کے قائد کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر اسمبلیوں میں حلف اٹھا رہے تھے‘ فوٹو سیشن کرا رہے تھے اور عمران خان کے ساتھ ہاتھ ملا رہے تھے اور نواز شریف عدالت میں اکیلا بیٹھا تھا‘
آپ وقت کی بے رحمی ملاحظہ کیجئے ”نواز شریف قدم بڑھاؤ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعرے لگانے والے تمام سینیٹرز‘ چیئرمین‘ یوسی ممبرز اور میئرز بھی13 اگست کو غائب تھے‘ ہمارے دانشور دوست مشاہد حسین سید اور نوجوان قائدین طلال چودھری‘ دانیال عزیز‘ محسن شاہ نواز رانجھا‘ مریم اورنگ زیب‘طارق فضل چودھری‘ ڈاکٹر مصدق ملک اور مفتاح اسماعیل بھی اس دن اپنے تاحیات قائد کے استقبال کی بجائے جوتے تلاش کرتے رہ گئے تھے،چنانچہ میاں نواز شریف خطرناک ترین مجرموں کی طرح بکتر بند گاڑی میں عدالت لائے گئے اورف اڑھائی گھنٹے عدالت میں بٹھائے گئے‘ پرویز رشید‘ سعدیہ عباسی‘ چودھری تنویر اور بیرسٹر ظفراللہ کو چالیس منٹ کے انتظار اور احتجاج کے بعد بڑی مشکل سے کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت ملی‘ پرویز رشید نواز شریف کے ساتھ بیٹھ گئے‘ ان کے پاس کہنے کےلئے کچھ تھا اور نہ ہی میاں نواز شریف کے پاس سنانے کےلئے کچھ چنانچہ دونوں خاموش بیٹھے رہے‘ چودھری تنویر نے پوچھا ”آپ کا وزن بہت کم ہو گیا ہے“ میاں نواز شریف نے جواب دیا ”ہاں 25 پاؤنڈ وزن کم ہوا ہے لیکن میں ٹھیک ہوں‘ادویات بھی وقت پر لے رہا ہوں اور کھانا بھی ٹھیک کھا رہا ہوں“ چودھری تنویر بھی خاموش ہو گئے‘ میڈیا میں میاں نواز شریف کو بکتر بند گاڑی میں عدالت لانے اور مسلم لیگیوں کی بے حسی کی خبریں چلیں تو
پارٹی کو ذرا ذرا سی شرم آنی شروع ہوئی‘ 13 اگست کی شام طارق فضل چودھری کے فارم ہاؤس میں ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس تھا‘ ایم این ایز نے میاں شہباز شریف کا گھیراؤ کر لیا‘ ان کا کہنا تھا ”میاں نواز شریف ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہئیں‘آپ انہیں ”اگنور“ کر کے اچھا نہیں کر رہے‘ہم اگر ان کےلئے کھڑے نہ ہوئے تو ہماری سیاست ختم ہو جائے گی“میاں شہباز شریف نے
وضاحت دینے کی کوشش کی لیکن وہ ارکان کو مطمئن نہ کر سکے یہاں تک کہ آخر میں فیصلہ ہوا میاں نواز شریف کو 15 اگست کو دوبارہ عدالت لایا جائے گا اور پارٹی اس دن آج کی غلطی کا تاوان ادا کرے گی۔آپ وقت کی مزید ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے میاں نواز شریف کو جیل گئے ابھی ایک مہینہ گزرا ہے اور پارٹی انہیں بھول چکی ہے‘ یہ لوگ13 اگست کو سوٹ پہن کر قومی اسمبلی کے پہلے
اجلاس میں شریک ہوئے اور ان لوگوں نے نواز شریف کا نعرہ لگانا تو دور بازوؤں پر سیاہ پٹیاں تک باندھنا مناسب نہیں سمجھا‘یہ ہال میں بھی اکٹھے داخل نہیں ہوئے‘ یہ ایک ایک کر کے آئے اور چپ چاپ اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے‘ میاں شہباز شریف کی آمد سب سے زیادہ بے اثر اور ناقابل توجہ تھی‘ یہ کسی طور پر اپوزیشن لیڈر محسوس نہیں ہو رہے تھے‘ بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری تیسری جماعت ہونے کے باوجود ایوان میں زیادہ پراثر اور جاندار نظر آرہے تھے‘ پارٹی کے لوگ اس دن ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے میاں شہباز شریف لاہور اور لندن میں بیٹھ کر اسلام آباد میں اپوزیشن کیسے چلائیں گے؟یہ پنجاب اور وفاق میں پارٹی کو کیسے متحد رکھیں گے؟پارٹی کا یہ خدشہ درست ہے‘