اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار جاوید چوہدری اپنے آج کے کالم میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ پارٹی کے لوگ اس دن ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے میاں شہباز شریف لاہور اور لندن میں بیٹھ کر اسلام آباد میں اپوزیشن کیسے چلائیں گے؟یہ پنجاب اور وفاق میں پارٹی کو کیسے متحد رکھیں گے؟پارٹی کا یہ خدشہ درست ہے‘ چودھری پرویز الٰہی
چھ ماہ کا ٹارگٹ لے کر پنجاب اسمبلی کے سپیکر بن رہے ہیں‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے 25 ارکان انہیں سپیکر کےلئے ووٹ دیں گے اور یہ سپیکر بننے کے بعد کسی بھی وقت ن لیگ کا فارورڈ بلاک بنا لیں گے اور عمران خان سے وزارت اعلیٰ کا مطالبہ کر دیں گے‘ حمزہ شہباز اس نیک کام میں چودھری پرویز الٰہی کی بھرپور مدد کریں گے‘ ن لیگ کے ایم پی ایز حمزہ شہباز کو پسند نہیں کرتے‘میاں شہباز شریف انہیں اپوزیشن لیڈر بنا کر غلطی کر رہے ہیں‘ مجھے خود ن لیگ کے ایم پی اےز نے بتایا عمران خان ہماری پارٹی کو خاندانی جاگیر کہتا تھا‘ یہ غلط نہیں کہتا تھا کیونکہ ہماری پارٹی کی قیادت اپوزیشن لیڈر کی کرسی بھی خاندان سے باہر برداشت نہیں کرتی‘ پارٹی کا اصل قائد جیل میں محبوس ہے اور میاں شہباز شریف اس کی بکتر بند گاڑی کے سامنے نعرہ لگانے کےلئے بھی تیار نہیں ہیں‘ والد وفاق میں اپوزیشن لیڈر ہے اور بیٹا پنجاب میں حزب اختلاف کا لیڈر گویا پارٹی میں کوئی دوسرا شخص کسی عہدے کے قابل نہیں۔مجھے کل ن لیگ کے ایک نوجوان ایم این اے نے کہا نواز شریف ہمارا محسن ہے‘ ہم آج اس کی وجہ سے ایم این اے ہیں‘ یہ اگر 13 جولائی کو پاکستان واپس نہ آتا تو ہم 20 سے زیادہ سیٹیں نہیں لے سکتے تھے‘وہ شہباز شریف کو 13 جولائی اور 13 اگست کی صورتحال کا ذمہ دار سمجھتا تھا‘ اس کا کہنا تھا میاں شہباز شریف اگر 13 جولائی کو لاہور ائیرپورٹ پہنچ جاتے اور یہ اگر 13 اگست کو پہلے اپنے تمام ایم این ایز کے ساتھ احتساب عدالت کے سامنے مظاہرہ کرتے اور پھر قومی اسمبلی جاتے تو ہم آج ملک میں کھسیانے ہو کر نہ پھر رہے ہوتے‘