اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف کالم نگار حامد ولید اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 172اراکین پورے ہوگئے، یوں جانئے کہ نئے پاکستان کے نورے اکٹھے ہو گئے، اس میں شک نہیں کہ کچھ آزاد اراکین تو شوق سے جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھے ہوں گے لیکن ایسے اراکین کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے جو خوف سے ان کے جہاز پر سوار ہو کر بنی گالا پہنچے اور گلے میں پی ٹی آئی کا پٹکا پہن کر اپنا گریبان کپتان کے ہاتھ میں دیتے نظر آئے ہیں۔
ابھی تک کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ جہانگیر ترین انہیں جا جا کر ایسا کیا کہتے رہے ہیں کہ وہ کشاں کشاں بنی گالا کی طرف دوڑتے نظر آئے ہیں تاہم ستم یہ ہے کہ کسی کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آزاد امیدوار بھاگے بھاگے بنی گالا آ کر کیا کہتے رہے ہیں کیونکہ اس سارے عمل میں نہ تو غزنوی کی تڑپ دکھائی دی ہے اور نہ ہی خمِ زلفِ ایاز کا نظارہ دیکھنے کو ملا ہے!۔۔۔جس کو دیکھوبیان حلفی پر دستخط کرتے دیکھاگیا لیکن جو عوامی مینڈیٹ کے پابند نہ رہے وہ بیان حلفی کے پابند کیونکر رہیں گے!133.آزاد امیدواروں سے ہم یہی کہیں گے کہ تو میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن!! ہم جہانگیر ترین کے حوصلے کو داد دیتے ہیں کہ وہ آزاد امیدواروں کو ہانک ہانک کر اور جگہ جگہ جھانک جھانک کر لائے ہیں۔ ان کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک خوبصورت لطیفہ چل رہا ہے کہ انہیں اپنے کسی مزارعے کے ساتھ ایک گنے کی فصل کے قریب کھڑے دکھایا گیا ہے اور نیچے عنوان دیا گیا ہے کہ ذرا جھانک کر دیکھو اس فصل میں تو کوئی آزاد امیدوار نہیں چھپا ہوا ہے!حقیقت یہ ہے کہ بھان متی کا کنبہ لاکھوں کی تعداد میں بھی اکٹھا ہو جائے تو بھی ان میں کام کا ایک بھی پٹھا نہیں ہوتا ہے، جنھیں صرف ایک کام ہوتا ہے کہ انہیں کوئی کام نہیں ہوتا۔عمران خان سے ایم کیو ایم کے وفد نے بھی ملاقات کی اور ان کا اصرار تھا عمران خان کی سپورٹ کے عوض کراچی والوں کو ان کا حق ملے، ہم کہتے ہیں کہ بے شک ملے، لیکن دیکھا تو یہی گیا ہے کہ ایم کیو ایم والوں کو جب بھی ملے دھکے ہی ملے ہیں!
بظاہر عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا کپ اپنے نام کرلیا ہے مگر جس طرح کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ 1992کا کرکٹ کپ بھی انہیں اسی طرح جتواگیاہوگا، یوں بھی کرکٹ میچ تو دہائیوں سے فکس ہو رہے ہیں۔2014کے بعد سے وہ اپنی دھن کے پکے رہے اور باؤنسر پر باؤنسر پھینکتے رہے مگر 2018کے انتخابات کی رات دھاندلی، دھاندلی کا ایسا شور مچاکہ پاکستان میں شائد ہی کوئی سیاستدان ان کی طرح جیت کر اس زور سے کبھی ہارا ہو۔ اچھے برے کے فرق سے آزاد ہو انہوں نے سب کچھ برباد کرکے ایک نیا پاکستان آباد کرنے کی ٹھانی ہے،
انہوں نے میدان مارا نہیں بلکہ سیاست میں مرگ میدان ثابت ہوئے ہیں کیونکہ ان کی ساری سیاست کسی اور کے اشاروں کی تکمیل پر مبنی رہی ہے۔ اب بھی جنرل مشرف کی باقیات ان کے گرد ایسے اکٹھی ہورہی ہیں جیسے کبھی وہ خود جنرل مشرف کے گرد نظر آتے تھے۔عمران کو قسمت کا دھنی کہنے والے لوگ پوچھتے ہیں کہ اے خدا کس بل بوتے پر تجھ کو غنی کہتے ہیں لوگ!عمران خان کو اس سے غرض نہیں ہے کہ ان کی کشتی پار ہوگی یا ہچکولے کھائے گی اور ان کے پیچھے چلنے والی قوم کو پھل ملے گا یا پولے کھائے گی،
ان کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ شیروانی پہن کر حلف اٹھائیں گے! اس میں شک نہیں کہ عمران خان کے پاسدار تگڑے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہی کی وجہ سے تو حالات بگڑے ہیں اور اگر اب بھی احتساب کا دائرہ بڑھے گا تو یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی جیتا ہوا شخص ہارے ہوئے شخص سے اک بار پھر سے لڑے گا۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسی افراتفری سے حالات نہیں سنوریں گے، گویا حالات نہ ہوئے الو کے پٹھے ہوگئے جو کبھی نہیں سدھریں گے۔ہم یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کوئی بحران ہویدا ہوا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے یہ بحران خود پیدا کیاہے۔
ایسے میں اصلاح احوال کے امکانات روشن رکھنے کا درس دینے والوں کو چاہئے کہ وہ اس بھاشن کو اپنے پاس رکھیں۔ مگر افسوس تو یہ ہے کہ اپوزیشن دھاندلی کے حوالے سے پارلیمانی کمیشن کا مطالبہ اس طرح کررہی ہے جیسے پارلیمنٹ بیٹھنے کی Permissionمانگ رہی ہو۔یوں بھی لگتا ہے کہ یہ عقدہ تاابد نہیں کھل سکے گا کیونکہ پارلیمانی کمیشن کیسے اس بات کی تحقیق کرسکتا ہے کہ پولنگ ایجنٹوں کو دھکے دے کر پولنگ اسٹیشن نے نکال باہر کیا گیا تھا۔اس لئے پرانے پاکستان کے نوروں سے درخواست ہے کہ صبر شکر کرکے پارلیمنٹ میں بیٹھ جائیں اور نئے پاکستان کے نوروں سے پنجہ آزمائی جاری رکھیں تاآنکہ ان کی قسمت یاوری کرے اور وہ پھر سے اقتدار میں آجائیں۔