اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے اصغر خان کیس میں وزارتِ دفاع سے کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرکے ایک ماہ کے اندر رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ بدھ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے اصغر خان کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ اگر عدالتی حکم پر عملدرآمد نہ
ہوا تو وزارتِ دفاع کے بجائے ملٹری حکام کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون سے کوئی بالاتر نہیں ہے، تاہم عدالت حکم پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ اصغر خان کیس میں آرمی افسران کے خلاف ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے وزارتِ دفاع کے نمائندے بریگیڈیئر فلک ناز سے استفسار کیا کہ اب تک آپ نے اس فیصلے پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا؟ جس پر انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ابھی تک وزارتِ داخلہ کی جانب سے سمری موصول نہیں ہوئی۔چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپ کتنے دن میں تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں گے جس پر انہوں نے درخواست کی کہ انہیں اس کام کیلئے 4 ہفتوں کا وقت دیا جائے۔عدالتِ عظمیٰ نے 4 ہفتے کا وقت دیدیا جبکہ وزارتِ دفاع سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت جاری کی کہ وہ ضروری معلومات فیڈرل انوسٹیگیش ایجنسی (ایف آئی اے) کو مہیا کریں۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سیاست دان ایف آئی اے سے تعاون کر رہے ہیں جس پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے نے بتایا کہ میر ظفر اللہ خان جمالی سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تھی، انہوں نے رقوم لینے سے انکار کیا ہے۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میرحاصل بزنجو اور ہمایوں مری الیکشن میں مصروفیات کے باعث اب ایف آئی اے میں پیش ہوں گے۔
بعد ازاں عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت 15 ستمبر تک ملتوی کردی۔یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے رواں ماہ 11 اگست کو 1990 کی دہائی میں سیاست دانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کے معاملے سے متعلق اصغر خان کیس دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کردیا تھا۔اس ضمن میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیس سے جڑے فریقین سابق وزیراعظم نواز شریف، سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ، سابق ڈی جی انٹر سروسز انٹیلی جنس اسد درانی، اٹارنی جنرل خالد اختر، ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن، مہران بینک کے مالک یونس حبیب سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کردئیے گئے تھے ٗاس کے علاوہ عدالت نے مذکورہ کیس کے تفتیشی افسر بشیر میمن کو رپورٹ جمع کرانے کا بھی حکم دیا تھا۔