اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد ہائیکورٹ میں لندن فلیٹس ریفرنس کے فیصلے کیخلاف شریف خاندان کی درخواست پر نیب کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے سزا کی معطلی کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور، دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ کے چبھتے سوالات نے نیب پراسیکیوٹر کا حلق خشک کر دیا، بار بار نئی تاریخ کی استدعا، راستہ نہ دیکھ کر اعتماد کا اعلان کئےجانے کے
تھوڑی دیر بعد ہی بنچ پر اعتراض اٹھادیا۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں لندن فلیٹس ریفرنس کے فیصلے خلاف شریف خاندان کی درخواست پر نیب کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے سزا معطلی کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کر لی ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس گل حسن اورنگزیب پر مشتمل نئے ڈویژن بنچ نے لندن فلیٹس کے فیصلے کیخلاف درخواست کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ اور نیب پراسکیوٹر میں دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ کے چبھتے سوالات نے نیب پراسیکیوٹر کا حلق خشک کر دیا، بار بار پانی طلب کرتے رہے جبکہ اس دوران نئی تاریخ کیلئے بھی کئی بار استدعا کی۔ دوران جسٹس اطہر من اللہ نے دونوں جانب کے وکلا سے بنچ پر مکمل اعتماد کی بابت سوال کیا جس پر دونوں جانب کے وکلا نے بنچ پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔ نیب پراسیکیوٹر نے سماعت کی ابتدا ہی میں شریف خاندان کی سزا معطلی درخواستوں کی مخالفت کی جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے نیب کے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے درخواستیں سننے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سزا معطلی کی درخواست پر پہلے سماعت کریں گے کم سزا کو پہلے سنتے ہیںجس پر نیب پراسکیوٹر نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپیلیں پہلے سنی جانی چاہئیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اپیل اپنے نمبر پر سنی جائیں گی ،
سزا معطلی کی درخواست پہلے سنی جائیگی جس پر نیب پراسیکیوٹر نے قانونی نقطہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ سزا معطلی کی اپیل 6ماہ بعد سنی جا سکتی ہے پہلے نہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے تو کیا ہائیکورٹ قانون کی خلاف ورزی کر رہی ہے، مشال خان کیس میں سزا معطلی کی درخواست منظور ہوئی۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ
نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیراعظم حلف اٹھا کر بنے یہ ثبوت کیساتھ کہہ رہا ہوں ، اب آپ ثبوت کیساتھ ثابت کریں کہ نواز شریف نے کرپشن ی جس پر نیب وکیل نے کہا کہ ہمیں تیاری کیلئے وقت چاہئے ، نیب وکیل کے جواب پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ 12رینجرز اہلکار آپ کیساتھ آئے ، جونیئر وکیل اتنی فائلیں اٹھا لیا ، اتنی تیاری کے بعد آپ کہتے ہیں کہ تیاری کیلئے وقت چاہئے ،
کچھ تو تیاری کر رکھی ہو گی آپ نے ، نیب وکیل نے اس موقع پر ایک بار پھر نئی تاریخ کی استدعا کی۔ رات 12بجے تک یہیں بیٹھے ہیں ، نیب وکیل نے ایک بار پھر استدعا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے جانے دیں میرا ایک اور بھی کیس ہے، جس پر اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کا وقت ختم ہو چکا آپ نے اب کونسا کیس لڑنا ہے جا کر ۔آپ میرے سوال کا جواب دیں کہ کیا نواز شریف نے
کرپشن کی ہے یا نہیں جس پر نیب وکیل کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت نے نوازشریف کو سزا دی ہے جس پر اطہر من اللہ نے کہا کہ احتساب عدالت نے فیصلے میں کہاں لکھا ہے کہ نوازشریف نے کرپشن کی نیب وکیل نے کہا کہ کہیں نہیں لکھا لیکن سزا ہوئی ہے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نوازشریف کو سزا کس جرم پر ہوئی نیب وکیل نے کہاکہ کرپشن ہوئی ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ
نوازشریف نے کرپشن کی تو ثبوت کہاں ہیں نیب وکیل نے کہ اکہ وہ احتساب عدالت سے سزا یافتہ ہے جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وکیل صاحب کس جرم میں سزا یافتہ ہے۔نیب وکیل نے پھر کہاکہ کرپشن پر سزا ہوئی جس پر اطہر من اللہ نے کہاکہ اچھا پھر کرپشن کے ثبوت دیں ۔اس موقع پر نیب وکیل کا حلق خشک ہو گیا اور انہوں نے پانی پینے کیلئے اجازت طلب کی جس پر اطہر من اللہ نے کہا کہ پانی پئیں
مگر ہماری آنکھوں پر پانی نہیں پھیر ا جا سکتا۔ پانی پینے کے بعد نیب وکیل نے جسٹس اطہر من اللہ کو کہا کہ آپ مجھ سے ہی سوال کر رہے ہیں نواز شریف کے وکیل سے بھی کچھ پوچھیں جس پر اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا پوچھوں آپ ہی بتادیں وہ تو یہاں اپنے مؤقف کیساتھ کھڑے ہیں کہ ان کے مؤکل نے کرپشن نہیں کی ۔ اس موقع پر ایک بار بھی نیب وکیل نے مہلت طلب کی جس پر
جسٹس اطہر من اللہ نے نیب وکیل کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ کسی بے قصور کو جیل میں رکھناکتنا بڑا جرم ہے ، عدالت برخاست نہیں کی جائیگی ، اگر سپریم کورٹ رات 12بجے لگ سکتی ہے تو یہ میری عدالت ہے اور رات 12بجے تک لگ سکتی ہے آپ ثابت یں کہ نواز شریف نے کرپشن کی ہے۔ اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ بغیر ثبوت کے
کیسے کسی شخص کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے کیسے کیسی کو سزا ہو سکتی ہے ہمارے ملک میں ایک ہوا چلی ہوئی ہے غداری کی مولانا صاحب مشرف کیساتھ تھے تو غدار نہیں تھے آج غدار ہو گئے ،ْہو سکتا ہے کہ عدالت ختم ہوتے ہی مجھے بھی غدار بنا دیا جائے ۔اطہر من اللہ نے نیب وکیل کو کہاکہ وکیل صاحب آپ کہیں نہیں جا رہے ،ْآپ کو بس ثابت کرنا ہے کہ کرپشن ہوئی
اس کے بعد کہاں کہاں ہوئی ،ْیہ بعد میں پوچھیں گے اور کیسے ہوئی یہ اس کے بعد ،ْآپ بے فکر رہیں پانی آ رہا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میرا سوال وکیل صاحب آپ سے ہے ،ْ آپ عدالت میں ثبوت دیں کہ کرپشن ہوئی ہے اگر نہیں ہوئی تو جے آئی ٹی کی رپوٹ غلط ہے اور سزا غیر قانونی ہے اس پر تو ریاست کو دھوکا دینے کا مقدمہ درج ہونا چاہیے۔نیب کے وکیل نے
جسٹس اطہر امن اللہ پر اعتراض کر دیا اور کہا آپ وکلاء تحریک میں نوازشریف کے ساتھ لانگ مارچ میں تھے ،ْاس لیے آپ یہ کیس نہیں سن سکتے جس پر جسٹس اطہر امن اللہ نے کہا تو پھر احتساب عدالت کا جج بھی یہ کیس نہیں سن سکتا وہ بھی مارچ میں شامل تھا ،ْآپ بہانے نہ بنائیں ،ْ کرپشن کا ثبوت دیں ،ْہو سکتا ہے کل جسٹس شوکت صدیقی کی طرح میرے خلاف بھی غداری کی مہم شروع ہو جائے ،ْ
اس ملک میں کچھ بھی ہو سکتا ہے ،آپ کو اس وقت تک جانے نہیں دوں گا جب تک آپ ثابت نہ کر دیں کہ نوازشریف نے کرپشن کی ،ْیہ میری عدالت ہے اور میں نے اللہ کو جواب دینا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں رات 12 بجے تک بھی بیٹھ سکتا ہوں لیکن آپ ثابت کریں نوازشریف نے کرپشن کی ،ْجب تک آپ ثابت نہیں کریں گے یہاں سے نہیں جائیں گے میرا اور میرے بچوں کا اللہ مالک ہے ،
جو رات قبر میں ہے باہر نہیں ،ْآپ ثابت کریں ،ْمجھے یہ نہ کہیں کے عدالت کا وقت ختم ہو گیا ہے میں نہیں اٹھوں گا کیونکہ ہوسکتا ہے کل بینچ ٹوٹ جائے اس لیے آپ ثابت کریں ،ْنوازشریف نے یہ یہ اور یہاں یہاں کرپشن کی ۔نیب وکیل نے کہا کہ یہ فیصلہ میں لکھا ہے کہ مریم نواز نے اثاثے چھپانے میں نوازشریف کی مدد کی ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا مدد کرنے سے کوئی شریک مجرم ہوتا ہے
جس پر نیب وکیل نے کہاکہ جی ہوتا ہے ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اچھا تو بیرسٹر صاحب نے آپ کو پانی پلانے میں مدد کی تو کیا یہ آپ کے ساتھ کیس میں شامل ہو گئے نیب وکیل نے کہا کہ مریم نواز نوازشریف کی بیٹی ہے اور اثاثے چھپانے میں مدد کرتی رہیںجسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ بیٹی تو میری بھی ہے اور وہ اپنے بھائی سے میرا قلم چھپا کر رکھتی ہے تو کیا اس معاملہ پر میں بھی اس جرم کا مجرم ہوں ۔نیب وکیل نے کہاکہ جی یہ بات الگ ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیس الگ ہے ،ْکیا آپ کی انگریزی الگ ہے اور ہماری الگ ہے ۔بعدازاں عدالت نے سماعت 15اگست تک ملتوی کرتے ہوئے نیب پراسیکیوٹر کو تیاری کرکے آنے کی ہدایت کر دی۔