اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی مظہر برلاس اپنے آج کے کالم میں لکھتے ہیں کہ میں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ تیمور علی بھٹی جھنگ کے دیہی علاقے کارہنے والا ہے ۔ یہ نوجوان پی ٹی آئی سے وابستہ تھا مگر پی ٹی آئی نے اسےٹکٹ نہ دیا۔ یہ نوجوان آزاد کھڑا ہو گیا۔ تیمور علی بھٹی نے مخالف امیدوار کو 13ہزار ووٹوں کے مارجن سے ہرایا جبکہ پی ٹی آئی کا امیدوار
تیسرے نمبر پر آیا۔ اگر تحریک انصاف سے اتنا ہی لاڈ تھاتو پھر تیمور بھٹی کیسے جیت گیا اور پی ٹی آئی کا امیدوار تیسرے نمبر پر کیسے آیا؟ کوٹ ادو کی مثال آپ کے سامنے ہے جہاں سے ایک نوجوان شبیر قریشی نے دس سال سے پی ٹی آئی کا پرچم تھام رکھا تھا مگر پارٹی نے اس نوجوان کو ٹکٹ کے قابل نہ سمجھا اور ٹکٹ سابق گورنر پنجاب ملک غلام مصطفیٰ کھرکودے دیا۔ شبیر قریشی معاشی حالت کابہانہ بناکرگھربیٹھ گیا مگر اس کے دوستوں نے نہ بیٹھنے دیا۔ خیر یہ نوجوان آزاد حیثیت میں امیدوار بن گیا۔ الیکشن ہوا توشبیر قریشی نے مصطفیٰ کھر کو شکست دے دی۔ ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں نے عمران خان کے ٹکٹوں کے غلط فیصلوں کو مسترد کیا لیکن پی ٹی آئی فیس کو مسترد نہیںکیا۔ پی ٹی آئی نے جیتنے کے لئے کسی بڑے لیڈر کو ٹکٹ دیا مگر لوگوں نے اس نوجوان کو آزاد حیثیت میں جتوا دیا جس نے برسوں پی ٹی آئی کے لئے دھکے کھائے تھے۔ایسا جگہ جگہ ہوا۔ ملتان میں جس نوجوان نے شاہ محمود قریشی کو صوبائی نشست پر شکست دی وہ بھی پی ٹی آئی ہی کا تھا۔ اسی طرح فیصل آباد سے اجمل چیمہ اور لیہ سے ڈاکٹر رندھاوا آزاد حیثیت میں جیتے۔واضح رہے کہ عمران خان کے ٹکٹوں کی تقسیم پر فیصلوں کو پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے نہایت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور پورے ملک سے کارکن شدید احتجاج کرتے ہوئے بنی گالا میں احتجاج کیلئے جمع ہو گئے تھے جن کو انتہائی کوششوں کے بعد مطمئن کر کے گھروں کو واپس بھیجا گیا تھا۔