اسلام آباد(این این آئی) پاکستان مسلم لیگ (ن )کے سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کی تاریخ سبق آموز ہے تاہم سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی گئی،ستر کے انتخابات میں عوام نے اپنے زور بازو سے نمائندگی کے حق کو منوایا، دوہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے روز کسی نے دھاندلی کا شور نہیں مچایا،بعد میں جنہوں نے دھاندلی کاالزام لگایا وہ بے نقاب ہو چکا ہے۔
جمعہ کو سینیٹ کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی نشریاتی اداروں نے جو اعتراضات اٹھائے ہیں اس کے بعد (ن )لیگ کا اعتراض بے معنی ہے، ہم بہت سی باتیں نہیں کہنا چاہتے،انتخابات کو جو رنگ دینا تھا دیدیا گیا ،جس شخص پر جو الزام لگانا تھا لگا لیے،دنیا الزام لگانے والوں کو پہچا ن گئی ہے ،جسے آپ اچھا کہتے ہیں لوگ اسے برا سمجھتے ہیں اور جسے آپ برا سمجھتے ہیں لوگ اسے اچھا سمجھتے ہیں، انتخابات مین پرچی کے نتائج عوامی امنگوں کے مطابق نہ آئے تو غصہ جیتنے والوں کے خلاف نہیں جتانے والوں کے خلاف نکلے گا۔سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ سیاسی کارکنوں نے کونسی قانون کی خلاف وری کی ہے، انہوں نے کونسی شرپسندی کی ہے،پاکستان میں آزادانہ انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے،نیب الیکشن قریب آتے ہی جاگی،پاکستان کا مستقبل جمہوریت میں ہے،پاکستان کی مقبول جماعت کے لیڈر کو جیل میں ڈال کر لوگوں سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،ان کو صرف ن لیگ کی کیمپین کو روکنے کیلئے جیل میں بند کیا گیا اور دوسرے لیڈروں کیلئے انتخابی کیمپین کی صورتحال بنائی جا رہی ہے ہے جبکہ ن لیگ کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے،پاکستان میں کسی اور کے خلاف صبح و شام کیسز نہیں چلے صرف ن لیگ کے خلاف کیسز چلے،تمام جماعتوں کو یکساں انتخابی کمپئین کے مواقع ملنے چاہئیں ٗیہ پاکستان کے مستقبل اور نہ ہی الیکشن پراسس کیلئے اچھا ہے۔
سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ غیر معمولی صورتحال میں ایوان کا اجلاس ان سیشن ہونا لازم ہے،دو ہزار تیرہ کا الیکشن نگران حکومت کرایا تھا،بہت سے اعتراضات اٹھائے گئے،اس کے بعد کی حکومت نے چالیس کے قریب انتخابات کا انعقاد کرایا مگر ایک بھی الزام نہیں لگا،ملک کے امن و امان کی صورتحال گو کہ خراب ہے مگر دوہزار والی صورتحال نہیں،زرداری دور میں ایوان صدر کے گراؤنڈ میں منصوبوں کے افتتاح ہو تے تھے،افغان سرحد پر مشکلات کا سامنا ہے،
انتخابات کا انعقاد کرانا نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے مگر کہا جا رہا ہے کہ سکیورٹی ایجنسی اس کے پیچھے ہے ٗلوگوں کو آئینی اور بنیادی حقوق ملنے چاہئیں،الیکشن کمیشن کے لوگ آئینی تقاضوں کے مطابق کر دارادا کریں ٗہمیں توقع ہے کہ نگران حکومت اپنے حلف کے مطابق اپنے فرائض انجام دے گی ٗلاہور میں ن لیگ کے کارکنوں کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا اس کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے،نگران وزیر اعلی پنجاب غیر جانبدار نہیں۔
انہوں نے کہاکہ نواز شریف نے کیسز کا جرات مندی سے مقابلہ کیا،ہمیں قانونی اور جمہوری راستوں پر چلنا ہے،سیاسی جماعتوں کو حصول اقتدار کیلئے بیساکھی کا سہارا نہیں لینا چاہیے،جمہوری عمل کے ذریعے حاصل کردہ اقتدار بہتر اور دیرپا ہوتا ہے۔سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے اس سے قوم کو آگاہ کرنا چاہیے،سیاسی کارکنوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟امیداوروں کے تحفظ کیلئے کیا کیا گیا؟ یہ نہیں چاہتے کہ دو ہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد والی صورتحال ہو،
ایک بار پر پھر کنٹینرز تیار کریں اور دھرنے ہوں۔انہوں نے کہ اکہ آرمی نے وضاحت دی مگر پھر بھی دو ٹوک وضاحت آنی چاہیے،آزادا اور شفاف انتخابات کے انعقاد کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے،۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کے دشمن ملک کے اندر اور باہر سرگرم عمل ہیں،سوشل میڈیا میں اس الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی سازش کی جارہی ہے،کچھ جانوروں پر لیڈروں کی تصاویر لگا کر ٹوئٹس کیے جا رہے ہیں، اس کو روکا جائے۔
ڈاکٹر سید آصف کرمانی نے کہا کہ اس وقت ملک میں نہ قانون ہے اور نہ ہی امن،خیبرپختونخوا ہو،بلوچستان ہو یا دوسرے صوبے امن و امان کی صورتحال خراب ہیں،نگران حکومت کی ترجیحات کا علم تک نہیں،کیوں نگران حکومتوں کی ضرورت پڑتی ہے؟پنجاب کے وزیر اعلی غیر جانبدار نہیں،وہ ایک اچھے پروفیسر تو ہیں مگر سیاست ان کے بس کی بات نہیں،ن لیگ کے کارکنوں کا جرم صرف قائد کے استقبال کیلئے جانا ہے۔انہوں نے کہاکہ نیب سوئی ہوتی تھی،
ان کو صرف ایک پارٹی نظر آتی ہے،کیا دوسرے جماعتوں کے لوگ دودھ کے دھلے ہیں؟یہ فیئر الیکشن نہیں،فراڈ الیکشن ہو رہے ہیں،سیاسی کارکنوں کے خلا ف دہشتگردی کے مقدمات درج کیے گئے،نگران حکومت اپنی ساکھ کھو چکی ہے،سینیٹ کے کردار کو تاریخ یاد رکھے گی،دوسری جماعت کے رہنماء بھی نیب کو درکار ہیں،انہیں تو 25جولائی کے بعد طلب کر لیا،ن لیگ کے خلاف اتنی جلدی کیوں؟ ہمیں بھی پچیس جولائی تک وقت دیتے، آنے والے انتخابات کی کوئی ساکھ نہیں،
تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے کو کاغذ ،قلم تک فراہم نہیں کیا جا جارہا،یہاں ایک لابی ہے جو اصل جمہوریت ی بجائے کنٹرول جمہوریت کی خواہاں ہے، مگر ایسا نہیں ہونے دیں گے،کچھ لوگوں کو زبردستی شیروانی پہنائی جا رہی ہے۔سینیٹر عائشہ رضا کا کہنا تھاپانچ سال بعد ایک مرتبہ پھر ایک سویلین حکومت دوسری سویلین حکومت کو اقتدار سونپنے جا رہی ہے،نہ صرف آزاد اور شفاف اتخابات کا کاانعقاد کیا جائے بلکہ آزاد اور شفاف انتخابات ہوتے ہوئے نظر بھی آنے چاہئیں،
کیا سب کو یقین ہیں کہ آزاد اور شفاف انتخابات ہوں گے؟۔انہوں نے کہاکہ لاہور نواز شریف کی آمد کے موقع پر میدان جنگ بنا ہوا تھا،میڈیا پر پابندیاں ہیں،فیصلہ کمزور جس کو قانونی تقاضوں کے مطابق نہیں کہاگیا،نواز شریف اور مریم نواز پر جیل میں ٹرائل کا فیصلہ کیا گیا،کیا وہ دہشتگرد ہیں؟اس سے یہ واضح ہوتا ہے ساری جماعتوں کو لیول پلینگ فیلڈ نہیں دی جارہی،آرمی کو کیوں الیکشن پراسس میں گھسیٹا جا رہا ہے،کیوں آرمی کو پولنگ اسٹیشن کے اندر اور مجسٹریٹ پاور دینے کی ضرورت پڑی؟
شہر کی بڑی شاہراہوں پر صرف ایک پارٹی کے بینرز لگ رہے ہیں۔سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کلثوم نواز کو چھوڑ کر وطن آئے،پاکستان کا مستقبل نواز شریف کے وژن سے منسوب ہے،کنٹینرز کے باوجود لاہور میں لاکھوں کا سمندر تھا مگر میڈیا نے کہا کہ یہاں کوئی نہیں،کچھ لوگوں کو مخصوص نشانات الاٹ کیے گئے،کالعدم جماعتوں کو مسلم لیگ ن کا ووٹ توڑنے کیلئے کھڑا کیا گیا۔سینیٹر نگہت مرزا نے کہا کہ بیرونی دشمنوں پر بات کی جاتی ہے
ملک کے اندر دشمنوں پر کسی کی کوئی توجہ نہیں،کراچی میں ایم کیو ایم کے بینرز اتارے جا رہے ہیں، الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری سے دستبرداری اختیار کئے ہوئے ہے،ایجنسیز کو ملک میں جمہوریت سے کیا خطرہ ہے، کراچی میں جو ہو رہا ہے اس کا نقصان پورے ملک کو ہو گا،کراچی والوں کو الیکشن سے دور رکھا جارہا ہے۔سینیٹر چوہدری محمد سرور نے کہا کہ الیکشن کمیشن تمام جماعت کے امیدواروں کو تحفظ لیول پینگ فیلڈ کی فراہمی کی فراہمی کو یقینی بنائی جائے،
پاکستان کے مستقبل کے فیصلے کا حق صرف عوام کے پاس ہیں،ہمارے اداروں کوبدنام کرنا بین الاقوامی ایجنڈے کا حصہ ہے، مسلم لیگ ن کی خراب کارکردگی کی وجہ سے تحریک انصاف کو پنجاب میں موقع ملا،الیکشن والے دن کسی قسم کی دھاندلی پاکستان کیلئے نقصان دہ ہوگی ،مسلم لیگ ن نے جو بویا وہی کاٹ رہی ہے،ضمنی انتخابات میں بھی فوج موجود تھی،اس وقت تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ ہم سب اس الیکشن کو گیم چینجر سمجھ رہے ہیں،
پچھلے پندرہ سالوں کی جمہوریت نے کوئی تیر نہیں مارا،ہم اپنے رویوں کی وجہ سے مار کھا رہے ہیں،اداروں کو حدود میں رہنے کا کہا جائے تو غداری کا ٹھپہ لگ جاتا ہے،الیکشن ماحول میں نفرتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ نظام ہی ختم ہو جائے،ہر ادارہ اپنے کام کے علاہ ہر کام کر رہا ہے،عدلیہ انصاف کے علاوہ سب کچھ کر رہی ہے،میری وفاداری صرف پاکستان اور آئین کے ساتھ ہے ۔سینیٹر نزہت صادق نے کہا کہ لوگوں کو انتخابات کیلئے پر امن ماحول مہیا ہونا چاہیے،مسلم لیگ ن کی کارکردگی عیاں ہے،
ہمارے قائدین کی نیت صاف ہے۔سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ یو این الیکشن مشن کے وفد نے ملاقات کی،انہوں نے مختلف پارٹیوں کی شکایات کی وجہ پوچھی، نواز شریف کے خلاف فیصلہ انصاف کا قتل ہے،ان کے خلاف فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا، لیول لینگ فیلڈ نہیں دی جارہی،ان کا خیال تھا کہ میاں صاحب کو الیکشن کے موقع پر سزا دینے کا فیصلے کیا تاکہ انتخابی مہم متاثر ہو گی، نواز شریف کے استقبال کیلئے لوگوں کا جمع غفیر تھا، دو صحافیوں نے کہا کہ سرینا کے شاپنگ بیگ میں دو بجے کے قریب فیصلہ لے کر آیا،
تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والے کو اس قسم کی سزا شرمناک ہے، یہ گندی سوچ کی عکاس ہے۔انہوں نے کہاکہ نگران حکومت غیر جانبداری میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے،ہماری جاعت اس پر احتجاج کریگی،کسی کے خلاف کریک ڈاؤن قابل مذمت ہے،جیپ پنکچر ہو چکی ہے،اگر کوئی افسریا اہلکار انتخابات میں اثر انداز ہونے کی کوشش کی تو اس کا نام سامنے لایا جائے گا ٗ چاہے اس کا تعلق محکمہ زراعت سے ہو یا کسی اور محکمہ سے،اگر کسی بیلٹ باکس کو تبدل کیا گیا تو اس کا سخت ردعمل آئے گا،
مینڈیت چوری کرنے کا سلسلہ بند ہو چاہئے۔انہوں نے کہاکہ ایک طرف جلسوں میں خالی کرسیاں اور دوسری طرف لاکھوں عوام سب کچھ بتا رہے ہیں۔رانامقبول احمد نے کہا کہ سختیوں اور مشکلات کے باوجود بڑی تعداد میں عوام کا آنا کسی اور طرف اشارہ ہے،جیل اور ائیرپورٹ پراہلکاروں نے جو رویہ نواز شریف کے ساتھ رکھا اس کا نوٹس لیں اور ذمہ داروں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔سینٹر شبلی فراز نے کہا کہ یہ منطق عجیب کہ سارے انتخابات سوائے دوہزار تیرہ کے سب ریگڈ تھے،
یہ مسلم لیگ نے کا وطیرہ بن چکی ہے کہ سابق وزیر اعلی،سپیکر سمیت ایوان بالا کے ممبران کھلے عام دھمکیاں دے رہے ہیں،یہ بادشاہت کے عادی ہے،یہ آمریت کا حصہ رہے،تیس،پینتیس سالوں میں آپ اقتدار میں رہے،الیکٹیبلز کی سیاست آپ نے شروع کی،ن لیگ ہار جائے تو شور مچاتی ہے اور اگر جیت جائے تو واہ واہ،یہ جمہوریت کا بھاشن دے رہے ہیں، ن لیگ کا زور صرف الیکشن کمیشن اور نگران حکومت پر چلتا ہے،مضبوط معیشت کے دعوے ایک ہفتے ہی میں بوس ہو گئے،
یہ اصل میں انتخابات ہار رہے ہیں ٗ ان کو ائیر پورٹ جانے سے نہیں روکنا چاہیے تھا تاکہ حقیقت کا پتہ چلتا،پہلے چیئرمین نیب ان کا اپنا مقرر کیا ہوا تھا اس لیے ان کے خلاف کیسز نہیں کھلے اور جب ایک غیر جانبدار چیئرمین نیب آیا تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ اس وقت پاکستان کو آزادانہ، شفاف انتخابات اور بے لاگ احتساب کی اشد ضرورت ہے،اگر احتساب کو سیاست کا تڑکا لگایا جائے تو یہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ہے،الیکشن کمیشن اور نگران حکومت آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں ناکام ہوئے ہیں، الیکشن کمیشن کے مطابق 4ہزار9سو45پولینگ اسٹیشنز بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ،حکومت کے مطابق اے این پی اور پیپلزپارٹی کو شدید خطرہ ہے ٗ
نگران وزیر داخلہ اعظم نے کہا کہ سکیورٹی کی ذمہ داری وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے،وزرت اطلاعات الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کر رہی ہے،لوگوں کو آزادانہ اور شفاف طریقے سے اپنا حق ادا کرنے کیلئے وزارت داخلہ نے الیکشن فیسیلیٹیشن سینٹر سیل کا قائم کیا ہے،جو چوبیس گھنٹے کم کر رہا ہے،الیکشن کمیشن کی درخواست پر فوج کی تعیناتی کی جائے گی،وزارت داخلہ میں روزانہ کی بنیاد پر صوبائی چیف سیکریٹریز اور آئی جیز ے ساتھ اجلاس ہو رہا ہے،سکیورٹی اہلکارو ں کی کنڈکٹ کے حوالے سے فوج کے ساتھ مشاورت کی جائیگی ،نیکٹا و دیگر ادارے بھی کام کر رہے ہیں،سیاسی رہنما کسی قسم کی سرگرمی سے قبل انتظامیہ کو اطاع ضرور کریں۔بعد ازاں اجلاس کی کارروائی (آج ) ہفتہ کی صبح دس بجے تک ملتوی کر دی گئی۔