اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف کالم نگار و تجزیہ کار جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہراج کول کشمیری پنڈت تھے‘ وہ 1716ءمیں نقل مکانی کر کے دلی آ گئے‘ پڑھے لکھے تھے‘ وہ بہت جلد مغل دربار تک پہنچ گئے‘ بادشاہ محمد شاہ رنگیلا نے انہیں دلی کے مضافات میں جاگیر دے دی‘ راج کول کی جاگیر سے نہر گزرتی تھی‘ پنڈت نے نہر کے کنارے حویلی بنا لی‘
یہ اس نہر کی مناسبت سے نہرو کہلانے لگے‘ یہ لوگ انگریزوں کی آمد تک مغل دربار سے وابستہ رہے‘ راج کول کی چوتھی نسل کا ایک سپوت گنگا دھر نہروبہادر شاہ ظفر کی سلطنت میں دہلی کا آخری پولیس چیف (کوتوال) تھا‘ یہ سمجھ دار انسان تھا‘ یہ مغل سلطنت کے خاتمے کے بعد انگریز سرکار میں شامل ہو گیا‘ اس کے تین بیٹوں نے بعد ازاں بہت عروج دیکھا‘ بڑا بیٹا بنسی دھر نہرو انگریز کے جوڈیشل ڈیپارٹمنٹ میں ملازم ہوا اور ترقی کی منازل طے کرتا رہا‘ دوسرا بیٹا نندل لال نہرو راجپوتانہ میں وزیراعظم بنا اور تیسرا بیٹا موتی لال نہرو ہندوستان کا نامور وکیل اور سیاستدان ثابت ہوا‘ یہ دوبار کانگریس کے صدر بھی رہے‘ موتی لال نہرو کے صاحبزادے جواہر لال نہرو بہت ذہین تھے‘ والد انہیں ہندوستان کا سب سے بڑا وکیل بنانا چاہتے تھے چنانچہ انہیں بچپن ہی میں لندن بھجوا دیا گیا‘یہ برطانوی اشرافیہ کے سکول ہیرو کے طالب علم رہے‘ کیمبرج کے ٹرینٹی کالج سے ڈگری لی اور پھر بار ایٹ لاءکر کے 1912ءمیں ہندوستان آ گئے‘ جواہر لال نہرو نے پریکٹس شروع کی تو یہ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں مشہور ہو گئے‘ شادی کی‘ بیٹی پیدا ہوئی‘ اس کا نام اندرا رکھا گیا‘ زندگی زبردست چل رہی تھی‘ یہ لوگ الٰہ آباد کے وسیع و عریض گھر میں رہتے تھے اورچاندی کے برتنوں میں سونے کے چمچ کے ساتھ کھانا کھاتے تھے لیکن پھر اچانک ہر چیز بدل گئی‘
جواہر لال نہرو نے سیاست میں آنے کا اعلان کر دیا‘ والد نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ باز نہ آئے‘ بیٹے کی ضد نے باپ کے ارادے کو چت کر دیا‘ فیصلہ ہوا جواہر لال نہرو کانگریس جوائن کریں گے‘ موتی لال نہرونے فیصلے کی رات جواہر لال نہرو کے کمرے سے پلنگ‘ صوفہ اور پنکھا اٹھوا دیا‘ باتھ روم بھی بند کر دیا گیا اور ان کے تمام سوٹس‘ ٹائیاں اور بوٹ بھی سٹور میں رکھوا دیئے گئے‘
نہرو نے وجہ پوچھی تو والد نے ٹھنڈے لہجے میں جواب دیا بیٹا آپ اگر سیاست کرنا چاہتے ہو تو پھر آج سے سخت اور محروم زندگی کی عادت ڈال لو‘ فرش پر سونا سیکھ لو‘ کھدر اور گرگابی پہنو‘ پنکھے کے بغیر رہو اور لیٹرین میں جاﺅ‘سیاست اور شہزادگی دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں‘ نہرو نے فرش پر چٹائی بچھائی‘ وہ رات فرش پر گزاری اور پھر پوری زندگی فرش‘ کھدر‘
گرگابی اور لیٹرین کے ساتھ گزار دی‘ یہ دس سال جیلوں میں بھی رہے‘ پولیس کی مار بھی کھائی اور قیدیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا بھی کھایا لیکن پوری زندگی کوئی مطالبہ کیا اور نہ حکومت سے رعایت مانگی‘ مہاتما گاندھی نے 8 اگست 1942ءکو ہندوستان چھوڑو تحریک شروع کی‘ کانگریس نے تحریک کے آخری حصے میں غیر ملکی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیا‘کانگریسی گھر سے بدیشی
مصنوعات نکال کر گلی میں ڈھیر کر دیتے تھے اور انہیں آگ لگا دیتے تھے‘ جواہر لال نہرو نے بھی اپنے گھر کی تمام بدیشی اشیاءاکٹھی کر لیں‘ اندراگاندھی اس وقت بچی تھی‘ اس کے پاس ایک خوبصورت ولایتی گڑیا تھی‘ نہرو نے وہ گڑیا بھی لے لی‘ والدہ نے اعتراض کیا ”ایک گڑیا سے کیا فرق پڑتا ہے“ نہرو نے جواب دیا ”کاملا فرق پڑتا ہے‘ ہم نے اگر آج گڑیا پر سمجھوتہ کر لیا تو پھر ہم پوری زندگی ہر
چیزپر سمجھوتے کرتے رہیں گے“ نہرو نے اندرا گاندھی کے سامنے وہ گڑیا بھی جلا دی‘اس کے بعد ان کے گھر میں کوئی غیر ملکی پراڈکٹ نہیں رہی یہاں تک کہ دروازوں اور کھڑکیوں کے کیل قبضے بھی دیسی تھے‘ دنیا یہ سمجھتی ہے بھارت آج جہاں ہے اس کی وجہ جواہر لال نہرو کی قیادت ہے‘ وہ نہ ہوتے تو آج بھارت بھارت نہ ہوتا‘ یہ شائین کرنے سے پہلے ہی بجھ گیا ہوتا۔یہ ہوتی ہے سیاست‘ یہ ہوتی ہے لیڈر شپ‘پوری دنیا میں سیاست خدمت کا دوسرا نام ہوتا ہے اور خدمت اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک خادم مظلوموں‘ ضرورت مندوں اور مسکینوں کے مسائل نہ جان لے‘