اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی ایاز امیر اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ کچھ تو آسمان سے بجلی گری جس کا مفہوم سمجھانے کی کوشش سب سے پہلے پیرِ کامل صدر ممنون حسین نے کی تھی۔ کچھ قانون اور انصاف کے تقاضے تھے۔ قانون کا کولہو چلا تو میاں صاحب اُس کے سامنے کچھ صحیح بیان نہ لا سکے۔ لیکن یہ حقیقت نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارے جیسے ممالک میں قانون اور انصاف کے تقاضے دیگر مصلحتوں کے تابع ہوتے ہیں۔
جو یہ نہ سمجھ سکے اُسے ہمارے جیسی سیاست پہ رائے دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف پانامہ پیپرز میں اُٹھائے گئے معاملات کا خاطر خواہ جواب عدالت کے سامنے نہ دے سکے۔ یہ اُن کا گناہ تھا۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے گناہ سرزد ہوئے ہیں اور اُن کی کوئی جواب دہی نہیں ہوئی۔ جواب دہی یا احتساب کا عمل پاکستان میں کارفرما ہوتا تو سب سے پہلے خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان سے پوچھا جاتا کہ آپ کو کس سمجھدار نے 1965ء کی جنگ کا پنگا لینے کو کہا تھا؟ ایوب خان کو ذلیل و رُسوا ہو کے اقتدار سے دستبردار ہونا پڑا۔ لیکن دستبرداری کی اور وجوہات تھیں، 65ء کی جنگ کا المیہ اُن کی رُسوائی کا سبب نہ تھا۔ جواب دہی ہوتی تو جنرل مشرف کارگل کے احمقانہ فیصلے کے سبب کٹہرے میں کھڑے ہوتے۔ جو اُس ایڈونچر کے پیچھے دوسرے اشخاص تھے اُن کا کورٹ مارشل ہوتا۔ لیکن جیسا ہم جانتے ہیں ایسا کچھ نہ ہوا۔ تو نواز شریف کو کس گناہ کی سزا مل رہی ہے؟نواز شریف کچھ زیادہ زُعم میں آ گئے تھے۔ کچھ گردن میں سریے کا بھی مسئلہ تھا۔ پاکستان کی سیاسی حقیقتوں کو بھی وہ بھول گئے۔ اس لئے ایسے بے جا اقدام کئے جن کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی۔ حملہ ایک صحافی پہ ہوتا ہے اور پورے شُد و مَد سے اکھاڑے میں میاں صاحب کُود پڑتے ہیں۔
حملہ ہونے والے صحافی یا کم از کم اُن کے خاندان کے کچھ افراد حملے کی ذمہ داری قومی اداروں پہ ڈالتے ہیں اور میاں صاحب اُس خواہ مخواہ کی صف بندی میں قومی اداروں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اُن کے مشیر خاص جناب پرویز رشید یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ہم غلیل والوں کے ساتھ نہیں، دلیل والوں کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ ایسی جملے بازی کی کیا ضرورت تھی؟پھر کراچی کے انگریزی اخبار سے منسلک مسئلہ سامنے آتا ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس میں ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوتا ہے‘ جس میں سیاسی رہنما اور قومی اداروں کے سربراہ شریک ہوتے ہیں۔ موضوعِ بحث انتہائی حساس معاملات ہیں۔ قومی اداروں کی سرزنش ہوتی ہے کہ اُن کی پالیسیاں ملک کو تنہا کر رہی ہیں۔ قومی ادارے کے سربراہ یہ سب کچھ سنتے ہیں اور اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ یعنی اُنہیں جو سنائی جاتی ہے احسن طریقے سے اُسے سنتے اور ہضم کرتے ہیں۔ لیکن میاں نوازشریف یا اُن کے کارندے اِس پہ خوش نہیں ہوتے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ قومی ادارے کا جب تک مکمل ڈھول نہ بجایا جائے، یعنی سرِ بازار رُسوا نہ کیا جائے، تو مزہ ہی کیا۔ اس لئے پورے اہتمام کے ساتھ اجلاس کی اندرونی رُودَاد انگریزی اخبار کے صفحہ اول کی زینت بنتی ہے۔ جن معاملات کو بیکار سے بیکار ممالک میں راز رکھا جاتا ہے وہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت میں تماشہ بنا دئیے جاتے ہیں۔ قدرتی طور پہ عسکری ادارے نالاں ہوتے ہیں۔ سپہ سالارِ فوج وزیر اعظم نواز شریف کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے ہیں
کہ معاملے کا حل نکالا جائے‘ اور جو اِس حرکت کے پیچھے ہاتھ ہیں اُنہیں اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے۔ ایک دو مشیرانِ خاص قربانی کا بکرا بنتے ہیں لیکن وزیر اعظم اِس حرکت کی پوری تلافی کر نہیں پاتے اور عسکری کمان کا ملال سُلگتا رہتا ہے۔ یہ تھا ڈان لیکس کا مسئلہ جو میاں نواز شریف سلجھا نہ سکے۔پھر جب سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ایک تفتیشی ٹیم بنائی جاتی ہے تو جن دِلوں میں انگارے اب تک سُلگ رہے ہوتے ہیں
وہ اِس موقع غنیمت جان کر حساب چُکانے کا تہیہ کرتے ہیں۔ تفتیشی ٹیم کے ممبران تو چھ تھے لیکن اُن کے پیچھے دَر پردہ ایک پورا سلسلہ تفتیش مرتب ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے تفتیش کے مکمل ہونے کے لئے ساٹھ دن کی مہلت دی ہوتی ہے۔ کوئی ایک مبصر یا صحافی نہیں جو یہ ماننے کو تیار ہو کہ ساٹھ دن میں رپورٹ مرتب ہو جائے گی۔ لیکن دِر پردہ سلسلہ تفتیش اتنا موثر ثابت ہوتا ہے کہ ان ہونی ہو کر رہتی ہے اور ساٹھ دن کے اندر سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کر دی جاتی ہے۔
انسان کو وہ سیڑھی نہیں بھولنی چاہیے جس سے وہ اُوپر آیا ہو۔ نواز شریف کی سیاست میں انٹری اور پھر اُن کی سطح دَر سطح ترقی حتیٰ کہ اُن کا اقتدار کے عروج پر پہنچ جانا، عسکری اداروں کے مرہون منت تھا۔ اُنہیں اُنگلی سے پکڑ کر سیاست کے میدان میں اُتارا گیا اور بے نظیر بھٹو مرحومہ کے مقابلے میں اُنہیں ہر امداد مہیا کی گئی۔ پہلی بار وزیر اعظم بنے تو بہت کچھ بھولتے گئے اور اُنہی اداروں سے ٹکر لینے لگے‘ جنہوں نے اُنہیں اِس اُونچے مقام پہ پہنچایا تھا۔
صدر غلام اسحاق خان اُن کے مہربان تھے اور اُنہی سے سینگ اَڑا بیٹھے۔ عسکری اداروں نے اِنہیں پالا پوسا تھا۔ فوج کے سربراہوں سے یہ اُلجھتے گئے۔ کسی ایک سربراہ سے نہیں، یہ میاں صاحب کا اعزاز ہے کہ اُن کی کسی آرمی چیف سے نہ بنی۔ کوئی نہ کوئی مسئلہ سامنے آتا رہا۔ اِس تیسرے دور میں اُن کی جنرل راحیل شریف سے نہ بنی۔ اِس کی وجوہات بہت ہو سکتی ہیں لیکن موجودہ آرمی چیف اور میاں نواز شریف میں بظاہر کوئی مسئلہ نہ تھا‘
ماسوائے ڈان لیکس کے سُلگتے انگاروں کا۔ یہ مسئلہ جنرل باجوہ کو ورثے میں ملا یعنی اُن کے سپہ سالار بننے سے پہلے یہ پیدا ہو چکا تھا۔ تھوڑی سی سمجھداری اگر میاں صاحب دکھاتے تو اوائل کے دِنوں میں یہ مسئلہ ختم ہو سکتا تھا۔ لیکن جہاں جنابِ پرویز رشید اور ہمارے دوست علامہ عرفان صدیقی جیسے مجاہد ہوں اور مریم نواز بھی ہواؤں میں اُڑ رہی ہوں تو عقلمندی کے تقاضے آسانی سے ہاتھ نہیں آتے۔ لہٰذا فضا بگڑتی گئی اور
جب پانامہ کا معاملہ سپریم کورٹ پہنچ گیا‘ تو یوں سمجھئے کہ سول اور عسکری اداروں میں مخالفانہ صف بندی پختہ ہو چکی تھی۔ اور یہ خلیج نون لیگ کی حکومت میں آخری دنوں تک پُر نہ ہو سکی۔ یہ تو قصہ پارینہ ہے۔ میاں نواز شریف اقتدار سے کیا گئے‘ اڈیالہ جیل پہنچ چکے ہیں۔ انتخابات سر پہ ہیں اور موجودہ سیاسی تعطل کا حل اِنہی سے نکلنا ہے۔ پاکستان کے مسائل گمبھیر ہیں۔ ہم کسی کمزور یا جوکر قیادت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
موجودہ حالات کی سنگینی کے تناظر میں کوئی میر ظفر اللہ جمالی جیسا وزیر اعظم نہیں چل سکتا۔ کسی راجہ پرویز اشرف یا شاہد خاقان عباسی کے بس کی بات نہیں کہ درپیش چیلنجوں پہ پورا اُتر سکیں۔ صادق سنجرانی فارمولا تو بلوچستان یا سینیٹ چیئرمینی کے حوالے سے چل سکتا ہے‘ لیکن اسلام آباد میں کارآمد نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کو مضبوط کرنے کی خواہش مند سنجیدہ اور بصیرت رکھنے والی قیادت درکار ہے۔ سوال وہی پرانا ہے کہ
کیا سیڑھیاں لگانے والے اور اقتدار کے کھیل میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے کسی مضبوط وزیر اعظم کو برداشت کر سکیں گے؟ ہوتا یہ رہا ہے کہ سیڑھیاں لگتی رہی ہیں، اقتدار کے چبوترے بنائے جاتے رہے ہیں اور پھر بنانے والے ہاتھ اُنہی چبوتروں کے خلاف برسر پیکار ہوتے رہے ہیں۔ایسے ڈھیلے ڈھالے انتخابات پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ سارے سیاسی عناصر دَبے دَبے پھر رہے ہیں۔ ہاں یہ درست ہے کہ ایک مخصوص ٹیم کو دَر پردہ پذیرائی بخشی جا رہی ہے۔ اس ٹیم کے سربراہ کی مدح سرائی کا یہ موسم ہے۔ اُن میں خوبیاں ہی خوبیاں دیکھی جا رہی ہیں اور کمزوریوں کا ذکر اچھا نہیں سمجھا جا رہا۔ لیکن انتخابات کے بعد اگر یہی ٹیم‘ جسے پذیرائی مل رہی ہے‘ اقتدار کے چبوتروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اِسے کام کرنے دیا جائے گا؟ قومی مفادات کی تشریح پھر تو نہ بدل جائے گی؟