اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما میاں نواز شریف اپنے صاحبزادی کے ہمراہ لندن سے پاکستان کے لیے روانہ ہو چکے ہیں۔ وہ اس سفر میں ابو ظہبی پہنچے ہیں۔اس سفر کے دوران نواز شریف اور معروف خاتون اینکر عاصمہ شیرازی اور دیگر صحافیوں کی نواز شریف کے ساتھ بذریعہ موبائل ٹیلی فون رابطہ ہوا ۔اس تمام گفتگو کی ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی ہے۔
صحافیوں کے بذریعہ موبائل فون گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے عاصمہ شیرازی سے اپنے انٹرویو کی بابت استفسار کیا کہ آپ نے میرا انٹرویو کیا تھا وہ نشر نہیں ہوا۔ جس پر عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ انٹرویو نشر نہ کرنے کے حوالے سے دھمکیاں موصول ہوئی ہیں اور چینل نے انٹرویو نشر نہیں کیا جبکہ اس حوالے سے صحافیوں کی تنظیم کے حوالے مشترکہ مؤقف بھی سامنے لایا جائے گا۔ عاصمہ شیرازی کی جانب سے بتائی گئی بات پر نوازشریف کا کہنا تھا کہ اس صورتحال پر آپ لوگوں کو اسٹینڈ لینا ہو گا۔ اس موقع پر نصر اللہ ملک نے بھی نواز شریف سے بات کی ، نواز شریف کا کہنا تھا کہ میڈیا پر قدغن افسوسناک ہے ، اگر 10نہ سہی 5چینل بھی سٹینڈ لے لیں تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ نواز شریف کا کہنا تھا کہ مریم نواز خوشی سے جیل نہیں جا رہی ہے، کس بنیاد پر اسے 8سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔ بس اب بہت ہو چکا ، اب برداشت نہیں ہوتا۔ اب موقع ہے پاکستان کی 70سالہ تاریخ بدلنے کا ، پاکستان کو بدنام کروایا جا رہا ہے ایسی حرکتیں کر کے، ہم ملک و قوم کی خاطر جیل جائیں گے اور یہیں سے تحریک اٹھے گی ۔ واضح رہے کہ میڈیا پر قدغنوں کے حوالے سے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کئی مرتبہ ذکر کر چکے ہیں جبکہ گزشتہ روز کئے گئے عاصمہ شیرازی کی جانب سے نواز شریف کے انٹرویو پر ائیر پورٹ پر صحافی عاصمہ شیزاری
نے بی بی سی اردو کے نمائندے طاہر عمران سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سکیورٹی کی وجہ سے صحافیوں کے موبائل میں ریکارڈ کردہ ویڈیوز ڈیلیٹ کر دی گئی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں علم ہوا ہے کہ میاں نواز شریف صحافیوں سے بات کرنا چاہتے ہیں تاہم سکیورٹی کی وجہ سے ابھی ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ ان کا مزید کہنا تھا ’بدقسمتی سے ہم جو کچھ نشر بھی کرنا چاہ رہے ہیں
پاکستان سے آنے والے اطلاعات کے مطابق ان پر بھی دباؤ کا سامنا ہے۔ اس صورتحال سے نواز شریف بھی آگاہ ہیں۔‘ان کا مزید کہنا تھا انھوں نے نواز شریف کا انٹرویو کیا تھا تاہم ’نامعلوم‘ وجوہات کی وجہ سے وہ نشر نہیں ہوا۔ ’سب جانتے ہیں پاکستانی میڈیا پر کس طرح کا دباؤ ہے اور پیمرا نے بھی ہدایت نامہ جاری کیا ہے کہ چونکہ نواز شریف ایک سزا یافتہ مجرم ہیں اس لیے ان کی ستائش نہ کی جائے۔‘
عاصمہ شیزاری کا کہنا تھا کہ انٹرویو دیکھنے سےقبل ہی فیصلہ کر لیا گیا کہ اس میں نواز شریف کی ستائش کی گئی ہوگی۔انھوں نے کہا کہ پاکستان میں شخصی اور صحافت آزادی ہونی چاہیے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگرچہ نواز شریف نے اپنے انٹرویو میں کسی پر کوئی الزام نہیں لگایا تاہم ان کا موڈ کافی خطرناک تھا۔ جس ارادے کے ساتھ وہ پاکستان جا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم اپبنے حق کے لیے
اور سویلین بالادستی کے لیے جا رہے ہیں۔‘عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا لگتا یہی ہے کہ وہ شاید مزاحمت کریں گے۔بی بی سی کے سوال پر کہ کیا ایسا لگتا ہے کہ نواز شریف کو کوئی امید ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف کی یقیناً ایک سیاسی جد و جہد ہے تاہم ماضی کے برعکس نواز شریف سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاسی بقا واپس جانے میں ہی ہے۔ ‘’کل ہسپتال میں میری سامنے کلثوم نواز نے
آنکھیں کھولیں اور میاں صاحب انہیں پکار رہے تھے۔‘عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا ’اس وقت نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرے لیے اپنی بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر جانا کافی مشکل تھا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھ سے کوئی بات کریں۔‘عاصمہ شیزازی نے بتایا کہ اگرچہ کلثوم نواز بات تو نہیں کر سکتی تھیں تاہم انھوں نے آنکھوں سے اظہار کی کوشش ضرور کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے نواز شریف سے پوچھا تھا کہ ان کی نظر میں اس ساری صورتحال کا اختتام کیا ہوگا تو لگتا یہی ہے کہ انھوں(نواز شریف) نے سر پہ کفن باندھ لیا ہے اور وہ ابھی یا کبھی نہیں کی حالت میں پہنچ چکے ہیں۔