اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروفکالم نگار منیر احمد بلوچ نے اپنے کالم میں لکھا کہ 1993ء کے دسمبر کا ذکر ہے‘ لاہور کے پرنٹ میڈیا سے تعلق رکھنے والے تین افراد جمیل چشتی، خالد قیوم اور درویش صفت فوٹو گرافر عمر شریف رائے ونڈ میں میاں نواز شریف فیملی کے وسیع و عریض رقبے پر بنائے گئے کیٹل فارم جا پہنچے۔ فارم میں گھومتے ہوئے انہوں نے وہاں کے رہائشی ملازمین سے اِدھر اُدھر کی معلومات لینا شروع کر دیں۔
فارم پر موجود انچارج نے فون پر ماڈل ٹاؤن اطلاع کر دی کہ اس طرح چند لوگ آئے ہوئے ہیں اور معلومات حاصل کر رہے ہیں‘ جس پر کیپٹن صفدر اپنے مسلح افراد کے گروپ کو ساتھ لے کر تیزی سے کیٹل فارم کی جانب روانہ ہو گئے۔ابھی مذکورہ صحافی کیٹل فارم (جاتی امرا نہیں) پر گھوڑوں، گائے بھینسوں اور بیلوں کی تعداد کے بارے میں معلومات ہی حاصل کر رہے تھے اور تصویریں بنا رہے تھے کہ ایک تیز رفتار جیپ فارم ہاؤس پر آ کر رکی اور اس سے اترنے والے کیپٹن صفدر سمیت پانچ افراد نے تینوں صحافیوں کو ادھر ادھر پٹخنا شروع کر دیا۔ صحافیوں کی چیخ و پکار سے آسمان لرزنے لگا اور مارنے والے ہر چیخ کے ساتھ ننگی گالیوں کی بارش بھی کرتے رہے۔ اسی دوران کیپٹن صفدر نے اپنے ساتھ لائے افراد کو حکم دیا کہ ان کو اندر کمروں میں لے جائیں اور ان کے جتنا برا سلوک ہو سکتا ہے‘ کریں۔ وہاں موجود ایک شخص‘ جو اس مار پیٹ میں ان کا ساتھ نہیں دے رہا تھا‘ نے انہیں سمجھایا کہ اگر تم لوگوں نے اس طرح کی قبیح حرکت کی تو وہ سب پر فائر کھول دے گا۔ یہ کہہ کر اس شخص نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی گن کی جانب اشارہ بھی کیا۔ لیکن کیپٹن صفدر اور مار پیٹ کرنے والے باز نہ آئے۔ جب فارم ہاؤس کے کمروں میں لے جا کر تینوں صحافیوں سے زیادتی کی جانے لگی تو اسی بندوق والے شخص نے ان پر گن تان لی اور کہا کہ وہ ایسا نہیں ہونے دے گا۔
اس پر کیپٹن صفدر جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ اس نے ان کے ساتھ بدسلوکی کا ارادہ تو ترک کر دیا‘ لیکن ان تینوں کو درختوں سے باندھ دیا اور ان بے چاروں پر تھپڑوں کی بارش کرتا رہا۔چند منٹوں بعد جمیل چشتی‘ جو عمر میں ان سب سے بڑے تھے‘ درد سے کراہتے ہوئے پانی کیلئے منتیں کرنے لگے۔ باقی دونوں نے بھی پانی کی طلب کی‘ لیکن کیپٹن صفدر کی جانب سے حکم ہوا کہ ان دو ٹکے کے صحافیوں کو پانی کی بجائے بھینسوں اور گائے کا پیشاب پلایا جائے۔
وہاں موجود بندوق بردار‘ جس نے کیپٹن صفدر کو پہلے زیادتی سے روکا تھا‘ نے ایک بار پھر سختی سے اسے ایسا کرنے سے منع کیا اور کہا کہ وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔ ساتھ ہی اس نے تینوں صحافیوں کو پانی لا کر پلایا جس پر ایک بار پھر کیپٹن صفدر اور اس شخص میں تلخ کلامی ہو گئی۔ جمیل چشتی اور خالد قیوم کا پرس اور کارڈ چھین لئے گئے تو عمر شریف کا سب سے پیارا کیمرہ کلاشنکوفوں کے دستوں سے توڑ پھوڑ دیا گیا۔ صحافیوں کو بڑی مشکل سے وہاں سے رہائی دلائی گئی
اور وہ تینوں کسی نہ کسی طرح وہاں سے اپنی ان موٹر سائیکلوں پر واپس گئے‘ جو انہیں واپس نہیں کی جا رہی تھیں۔ یہ وہی بہتر جانتے ہیں کہ واپس گھروں میں کیسے پہنچے۔ اس واقعہ کے بعد صفدر اور مریم صفدر سے اس شخص (بندوق بردار) کی سخت چپقلش شروع ہو گئی‘ جس کا ذکر میاں نواز شریف تک جا پہنچا۔ اب دیکھئے کہ جیسے ہی صفدر کو معلوم ہوا کہ اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی ہے تو اس نے اپنا نام موسیٰ خان رکھ لیا اور ساتھ ہی چپکے چپکے پوچھنا شروع کر دیا کہ اس جرم کی کتنی سزا ہوتی ہے؟
جیسے ہی یہ تینوں شدید زخمی حالت میں واپس اپنے متعلقہ اخبارات کے دفاتر پہنچے تو یہ خبر فوراً عام ہو گئی اور اس وقت کے محدود میڈیا کے ایک حصے کے ساتھ ساتھ عوام میں بھی غصے کی لہر دوڑ گئی انہیں فوری طور پر سروسز ہسپتال لے جایا گیا‘ جہاں ان کا علاج معالجہ کیا گیا۔ لیکن چونکہ نواز شریف کا نوازا ہوا میڈیا کا ایک حصہ آج کی طرح اس وقت بھی طاقتور تھا اس لئے میڈیا کی جانب سے ایک ہلکے سے احتجاج کے سوا اور کچھ نہ ہوا۔ چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر تھے۔
ان کے حکم سے بڑی مشکل سے کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر درج ہو سکی‘ وہ بھی اس لئے کہ ان تینوں کے بدنوں پر لگنے والے زخموں کے نشانات اس قدر گہرے اور پسلیوں پر لگنے والی چوٹیں اس قدر شدید تھیں کہ پولیس کے پاس میڈیکل رپورٹ پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا اور اسے بادل نخواستہ نہایت ہلکی قسم کی تعزیرات کے تحت تھانہ سٹی رائے ونڈ میں ایف آئی آر درج کرنا پڑی۔ جس طرح آج لاہور، گوجرانوالہ، شیخوپورہ، راولپنڈی، نارووال اور قصور کے تھانوں سمیت کئی دوسرے تفتیشی اداروں میں نواز لیگ کے انتخابی امیدواروں کی منظوری سے تعینات کئے گئے اہلکار ہیں‘
جس کا ثبوت اپنی نگرانی میں دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود راولپنڈی میں ریلی کی اجازت ہی نہیں بلکہ ڈی پی او/ آر پی او کی جانب سردار تنویر کو فون کرکے انہیں مکمل سپورٹ کی یقین دہانی کرانا ہے‘ اسی طرح کی صورتحال آج سے پچیس برس قبل لاہور پولیس اور اس کے افسران کی تھی‘ جن کے سامنے کیپٹن صفدر اور اس کے ساتھی ملزمان مزے سے گھوم رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں تھا۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز‘ جو اس وقت بالکل نوجوان تھے‘
نے کیپٹن صفدر کی اس حرکت کا سخت برا منایا اور جب انہیں بتایا گیا کہ صفدر ان صحافیوں سے کیا قبیح حرکت کروانے جا رہا تھا‘ تو انہوں نے ذاتی طور پر صحافیوں سے معافی مانگی۔ جمیل چشتی بے چارہ اس جان لیوا تشدد کے بعد چلنے پھرنے سے معذور ہو چکا تھا اور یہی حالت خالد قیوم اور عمر شریف کی بھی تھی۔ منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب تھے اور گورنر چوہدری الطاف‘ اس کے باوجود کسی ایک بھی تھانیدار اور پولیس افسر نے ملزموں کی جانب آنکھ اٹھا کر دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ کیا یہ حیران کن نہیں کہ میاں نواز شریف کی حکومت کی بجائے منظور وٹو پنجاب کا حکمران تھا‘ لیکن پولیس ان کے احکامات کی پروا ہی نہیں کر رہی تھی۔
جب اس وقت کے کچھ میڈیا کی جانب سے جمیل چشتی جیسے درویش کی حالت زار پر رونا رویا گیا‘ تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنرل بابر کے حکم پر ایس ایس پی لاہور کو سختی سے حکم دیا گیا‘ لیکن پولیس نے ساتھ ہی ماڈل ٹاؤن پیغام پہنچا دیا کہ ’’کیپٹن صاحب‘‘ کو گھر سے باہر نکلنے سے منع کر دیا جائے اور اگر ان کا جانا بہت ہی ضروری سمجھا جائے تو پہلے ہمیں اطلاع کر دی جائے۔ اس پر کیپٹن صاحب نے اپنا نام موسیٰ خان رکھ لیا اور حکم جاری کر دیا کہ گھر میں کسی کی زبان سے کیپٹن صفدر کا نام نہ نکلے۔ سب انہیں موسیٰ خان کہہ کر پکاریں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو ایک دن لاہور پہنچیں تو فیصل صالح حیات‘ جو پنجاب میں فرائض سرانجام دے رہے تھے‘ نے محترمہ سے شکوہ کیا کہ پنجاب پولیس ان سے کسی قسم کا تعاون نہیں کر رہی‘ یہاں تک کہ جن تین صحافیوں کی پسلیاں توڑی گئیں‘ اس کے ملزموں کو بھی نہیں پکڑا جا رہا۔ محترمہ نے انہیں بروئے کار آنے کا کہا۔ فیصل صالح حیات کے حکم پر پولیس حرکت میں آئی تو رانا مقبول اور مرحوم انسپکٹر نوید سعید کے ذریعے‘ جن کے جمیل چشتی سے بہت ہی قریبی تعلقات تھے‘ صلح کی کوششیں شروع کر دی گئیں‘ لیکن خالد قیوم ان کے آڑے آ رہا تھا کیونکہ اسے بہت مارا گیا تھا۔ یہ کیپٹن صفدر‘ جو آج خود کو بہادر اور اصلی کیپٹن کہتے نہیں تھکتے‘ ایک مقدمے میں ان کے خوف کا یہ عالم تھا کہ اپنا نام بدل کر موسیٰ خان رکھ لیا تھا۔