اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آباد اور راولپنڈی میں طلباء ہاسٹلز نے مافیا کا روپ اختیار کرلیا، ہاسٹل مالکان مختلف طریقوں سے طلباء کو لوٹنے میں مصروف ، سہولیات کا شدید فقدان ،تنگ و تاریک کمرے، گندے واش رومز،بے ہنگم شور اور آسمان سے باتیں کرتے ہوئے کرایے ،مجبور طلباء کے لئے اپنے گھروں سے باہر رہنا امتحان بن گیا ہے، جڑواں شہروں میں ہاسٹلز ریگولیٹ کرنے کے لئے کوئی فعال اتھارٹی موجود نہیں ہے، سڑکوں ، گلیوں اور مارکیٹوں میں بغیر کسی ضابطے کے روز نئے ہاسٹلز تعمیر ہورہے ہیں جن میں طلباء کی سہولت کا کوئی خیال نہیں رکھا جاتا۔
متعدد ہاسٹلز سڑکوں اور آٹو ورکشاپس کے قریب بنائے گئے ہیں جہاں دن رات گاڑیوں کا شور ہوتا ہے جس کے باعث طلباء کو اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز کرنے میں دشواری کا سامنا ہوتا ہے۔ شہر میں سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے اور بدقسمتی سے دونوں قسم کے اداروں کے پاس ہاسٹلز کی کمی ہے جس کے باعث ہاسٹلز کاروبار خوب چمک رہا ہے اور مالکان کھنڈر نما ہاسٹلز کھڑے کرکے پیسے بٹورنے میں مصروف ہیں،جنھیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ اسلام آباد کے سیکٹر G-11مرکز کے ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں مقیم طالب علم عنایت احمد نے بتایا “میرا تعلق چترال سے ہے ، میں کچھ سال قبل اعلی تعلیم کے لئے اسلام آباد آیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ ہماری یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں طلباء کے لئے مناسب جگہ موجود نہیں ہے اسی لئے میں نے ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں کرایے پر کمرہ لے لیا، ہم ایک کمرے میں تین دوست رہتے ہیں ،کیونکہ کرایے بہت زیادہ ہیں جو ہمارے لئے افورڈ کرنا مشکل ہے، ہمارے ہاسٹل میں تین سیٹوں والے کمروں میں پانچ پانچ اور چھ چھ افراد بھی رہتے ہیں جو بہت مشکل سے وقت گزارتے ہیں۔ ہاسٹل میں بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے۔ کھانا نہایت غیرمعیاری ہے جس میں حفظان صحت کے اصولوں کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا۔
مجھے گزشتہ سال ہاسٹل کے آلودہ پانی اورغیرمعیاری کھانے کے باعث فوڈپوائزنگ ہوئی تھی اور میں نمونیا جیسی موذی بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا، میں نے تقریباً دوماہ بستر پر گزارے اور صحت یابی کے بعد بھی میں مکمل طور پر ریکور نہیں ہوسکا، میری صحت کمزور ہوئی اورپڑھائی متاثر ہونے کے علاوہ میں کھیل کود کے قابل بھی نہیں رہا حالانکہ میں فٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا اور یونیورسٹی کے کھیل مقابلوں میں بھرپور شرکت کرتا تھا۔یہ میری زندگی کا مشکل وقت تھا۔
کیونکہ میں گھر سے دور تھا اور علاج کے دوران صحیح دیکھ بال کے لئے دوستوں کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، دوسری طرف مہنگے ٹیسٹ اور دوائیوں کا بوجھ بھی میرے لئے ناقابل برداشت ہوگیا تھا ۔ “واضح رہے کہ بغیر کسی منصوبہ بندی کے بنائے گئے ان ہاسٹلز میں طلباء کی سکیورٹی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی اور کمروں سے لیپ ٹاپ، موبائل فونز اور دیگر قیمتی اشیاء کی چوری عام سی بات سمجھی جاتی ہے۔ اس بارے میں راولپنڈی کے علاقے ڈبل روڈ کے ایک پرائیویٹ ہاسٹل میں مقیم سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کے طالب علم محمد عابد نے بتایا”ہاسٹلز میں سکیورٹی ایک بڑا مسئلہ ہے۔
جس نے میرے تعلیمی کیرئیر کا ایک سمسٹر ضائع کیا ہے، میں گذشتہ سال اپنے بی ایس کے تھیسز پر کام کررہا تھا ، میں نے تھیسز تقریباً مکمل ہی کیا تھا جب ایک دن میرے کمرے سے لیپ ٹاپ چوری ہوگیا جس میں میرا تھیسز ضائع ہوگیا اور مجھے دوبارہ اسے تحریر کرنے میں مزید ایک سمسٹر لگا۔”جڑواں شہروں میں ہاسٹلز کی صورتحال پریشان کن ہے اور ان میں مقیم طلباء نے متعدد مسائل کا ذکر کرکے متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ وہ اس سنجیدہ ہ مسئلے پر توجہ دیں اور طلباء کی مشکلات ختم کرے۔