اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف ایوین فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنانے سے قبل احتساب عدالت کے جج کافی اضطراب کی حالت میں ریٹائرنگ روم میں ٹہلتے رہے، بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق نواز شریف کے وکلاء نے فیصلے کو کچھ دنوں کے لیے موخر کرنے کی درخواست کے حق میں کمرہ عدالت میں اپنے دلائل دیے
اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی میڈیکل رپورٹ عدالت میں پیش کی تو اس موقع پر احتساب عدالت کے جج نے ان رپورٹس کو دیکھا ہی نہیں اور وکیل کے دلائل پر سر ہلاتے رہے، استغاثہ کے ساتھ بھی جج کا یہ رویہ تھا ان کی جانب سے درخواست کی مخالفت میں جو دلائل دیے گئے اس کو بھی تحریر نہیں کیا گیا، آدھے گھنٹے بعد فیصلہ موخر کرنے کی درخواستیں رد کر دی گئیں تو اس موقع پر امید ہوئی کہ فیصلہ جلد ہی سنا دیا جائے گا۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ فیصلہ مقامی وقت کے مطابق ساڑھے بارہ بجے سنایا جائے گا، جب ساڑھے بارہ ہو گئے تو جج کمرہ عدالت میں نہیں آئے اور عملے سے ہی کہلوا دیا کہ فیصلہ اڑھائی بجے سنایا جائے گا، اڑھائی بجے بھی جج عدالت میں نہیں آئے اور اس موقع پر عدالتی عملے نے بتایا کہ فیصلہ آدھے گھنٹے بعد سنایا جائے گا، اس موقع پر عدالت میں موجود صحافیوں نے آپس میں گفتگو میں کہا کہ وقت پر وقت دیے جا رہے ہیں لیکن فیصلہ نہیں سنایا جا رہا، رپورٹ کے مطابق صحافیوں کی یہ گفتگو شاید جج نے سن لی اور مقررہ وقت آتے ہی عدالتی عملے نے کمرہ عدالت کو اندر سے کنڈی لگا لی اور صحافیوں کو کمرہ عدالت سے باہر روک دیا، صحافیوں نے کمرہ عدالت کھلوانے کے لیے نعرہ بازی بھی کی جس پر عدالتی عملہ نے انہیں اس عمل سے باز رہنے کو کہا، رپورٹ کے مطابق احتساب عدالت کے جج فیصلہ سنانے سے قبل کافی دیر تک اضطراب کی حالت میں اپنے ریٹائرنگ روم میں ٹہلتے رہے پھر جج نے نیب کے وکیلوں اور ملزمان کے وکلاء کو کمرہ عدالت میں بلوا کر اندر سے کنڈی لگا لی، صحافیوں نے جج کی بات پر اعتماد کیا اور احاطہ عدالت سے باہر چلے گئے اس دوران جج نے فیصلہ سنا دیا۔