اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)ایون فیلڈ ریفرنس کیس کا فیصلہ آنے سے قبل قطری شہزادے کی ہنگامی پاکستان آمد، نگران وزیراعظم سمیت کئی اعلیٰ حکام سےملاقاتیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایون فیلڈ کیس کا فیصلہ آنے سے قبل گزشتہ روز قطری شہزادے حماد بن جاسم کے بھائی اور قطر کے وزیر تجارت شیخ احمد بن جاسم کی پاکستان ہنگامی آمد ہوئی ہے۔ وہ صبح کے وقت اسلام آباد پہنچے
اور صبح 9 بجے مقامی ہوٹل میں وزارت تجارت کے ذیلی ادارے ٹریڈ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے پروگرام میں شریک ہوئے اور ساڑھے 9 بجے وہاں سے روانہ ہوگئے۔جس کےبعد قطری شہزادے نے نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک سے ملاقات کی۔ذرائع نے بتایا کہ قطری شہزادے نے دیگر اعلی ٰحکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق قطری شہزادے کی پاکستان آمد شیڈول سے ہٹ کر تھی۔ان کی اسلام آباد آمد کے موقع پر بظاہر یہ تاثر دیا گیا کہ قطری شہزادہ پاکستان اور قطر کے درمیان دوطرفہ تجارت میں اضافہ کے لیے تشریف لائے ہیں۔ لیکن کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ قطری شہزادہ میاں نواز شریف کو ریلیف دلوانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے ہی پاکستان پہنچے۔قطری شہزادے کی اچانک پاکستان آمد کو معنی خیز قرار دیا جا رہا ہے جس نے کئی سوالات کھڑے کر دئے ہیں۔ اس حوالے سے سیاسی حلقوں میں بھی کئی چہ میگوئیاں بھی ہو رہی ہیں۔واضح رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ مؤخر کرنیکی نواز شریف کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا ہے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ دن 12:30پر سنانے کا اعلان کیا تھا جبکہ بعد میں فیصلے کے وقت میں توسیع کرتے ہوئے اسے دن ڈھائی بجے کر دیا گیا۔احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے زبانی فیصلہ سناتے ہوئے
نواز شریف کی فیصلہ مؤخر کرنےکی درخواست مسترد کی۔ نواز شریف کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کلثوم نواز کی خرابی صحت کو بنیاد بنا کر ایک ہفتے کیلئے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ موخر کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی ۔ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنائے جانے سے قبل فریقین کے وکلا نے اس درخواست پر دلائل دیے جس کے بعد جج محمد بشیر نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو ایک گھنٹے بعد سنایا گیا ۔ جج محمد بشیر نے درخواست مسترد کرتے ہوئے آج (جمعہ کو ) ہی ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سنانے کا حکم دیا ہے انہوں نے ریمارکس میں کہا کہ جن کی درخواست ہے وہ عدالت میں موجود ہی نہیں ہیں۔