اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی و کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ آصف علی زرداری بائیکاٹ کے ایشو پر میاں نواز شریف سے ملاقات کی تردید کر چکے ہیں‘ یہ تردید درست ہے‘ دونوں میں واقعی ملاقات نہیں ہوئی تاہم یہ بھی غلط نہیں دونوں کے درمیان رابطہ استوار ہو چکا ہے اور یہ دونوں بائیکاٹ کےلئے سمجھوتہ طے کر رہے ہیں‘
اگر یہ سمجھوتہ طے پا گیا تو یہ دونوں بائیکاٹ کر دیںگے‘ اب سوال یہ ہے یہ بائیکاٹ کیوں کریں گے؟ اس کی بڑی وجہ مستقبل کا سیاسی نقشہ ہے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کو اپنا مستقبل صاف نظر آ رہا ہے‘ پیپلز پارٹی کا خیال تھا پنجاب بالخصوص جنوبی پنجاب میں انہیں گنجائش مل جائے گی لیکن یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا چنانچہ یہ محسوس کرتے ہیں پنجاب تو دور سندھ بھی اب ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا‘ سندھ میں پی ایس پی‘ ایم کیو ایم پاکستان‘ جی ڈی اے اور آزاد امیدوار مل کر حکومت بناتے دکھائی دے رہے ہیں‘تحریک انصاف اپوزیشن میں بیٹھے گی اور پیپلز پارٹی پانچ سال مقدمے بھگتے گی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کا خیال تھا ملک میں جتنی بھی ”سیاسی انجینئرنگ“ ہو جائے پنجاب ان کے ہاتھ سے نہیں نکل سکتا لیکن یہ لوگ اب اس حقیقت سے واقف ہو چکے ہیں وفاق کے ساتھ ساتھ پنجاب بھی اب ان کا نہیں رہا چنانچہ وقت ایک بار پھر آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو ایک میز پر لے آیا ہے اور وہ آصف علی زرداری جو کبھی میاں نواز شریف کی ٹیلی فون کال سننے کےلئے تیار نہیں تھے وہ اب ان کا فون بھی سن رہے ہیں اور ان کے ساتھ بیٹھنے کےلئے بھی تیار ہیں بس اعلان ہونا باقی ہے۔ہم اب الیکشن بائیکاٹ کے ”میجر وکٹم“ کی طرف آتے ہیں‘ ہمیں ماننا ہوگا اگر ملک کی دونوں بڑی پارٹیاں بائیکاٹ کر دیتی ہیں تو عمران خان اس فیصلے کے
سب سے بڑے وکٹم ہوں گے‘ یہ وزیراعظم نہیں بن سکیں گے‘ کیوں؟ اس کی بھی دو وجوہات ہیں‘ ایک‘ الیکشن اگر دو تین سال کےلئے موخر ہو جاتے ہیں تو پاکستان تحریک انصاف تتر بتر ہو جائے گی‘ الیکٹ ایبلز تحریک انصاف سے ”اصل پارٹی“ کی طرف چلے جائیں گے‘ یہ چودھری نثار کے کیمپ میں آ جائیں گے اور اگر الیکشن بائیکاٹ کے باوجود ہو جاتے ہیں تو چودھری نثار کا جیپ گروپ سامنے آ جائے گا
اور یہ عمران خان کو قبول نہیں کرے گا چنانچہ پاکستان تحریک انصاف اپنا امیدوار بدلنے پر مجبور ہو جائے گی اور یوں شاہ محمود قریشی سامنے آ جائیںگے‘پارلیمنٹ چودھری نثار اور شاہ محمود قریشی چلائیں گے اور ملک کی تینوں بڑی جماعتوں کے سربراہ سسٹم سے باہر بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں گے‘ یہ تمام امکانات موجود ہیں‘ یہ اگلے دو ہفتوں میں کھل کر سامنے بھی آ جائیں گے
تاہم یہ طے ہے یہ الیکشن پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دونوں کو نقصان پہنچائیں گے‘ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں کا ”پارلیمنٹری کیریئر“ ختم ہو جائے گا اور یہ پارٹیاں اگر 2018ءکے بعد چلتی ہیں تو پھر بلاول بھٹو اور میاں شہباز شریف دونوں کو پارٹی کی عنان سنبھالنا ہوگی‘ انہیں آگے آنا ہوگا ورنہ ان کے ساتھ پارٹیاں بھی فارغ ہو جائیں گی۔کل کیا ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کوئی نہیں جانتا لیکن حالات آنکھیں کھولنے کےلئے کافی ہیں۔