اسلام آباد (نیوز ڈیسک)پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ میرے علاقے سے میرے بندے کی گرفتاری کسی کی ادا ہے اور ہر ادا میں ایک پیغام ہوتا ہے ٗپنجاب میں زیادہ تر آزاد امیدوار کامیاب ہونگے ٗ ہر حال میں حکومت نہیں چاہتے ٗ جس نے بھی حکومت بنانا ہوگی اس کو ہم سے بات ضرور کر نا ہوگی ٗ عام انتخابات میں تاخیر کی آئین میں گنجائش ہی نہیں ٗ ارتقا پر یقین رکھتا ہوں انقلاب پر نہیں ٗ
عمران خان کہہ چکے ہویں میرے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے ٗ خود سارے درواز ے بند کر دیئے ٗدوبارہ صدر پاکستان بننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ،اس وقت کوئی ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ نہیں، چین پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے، 25جولائی کے بعد بھی پاکستان میں سیاسی استحکام آتا نہیں دیکھ رہا ۔ ایک انٹرویومیں آصف زرداری نے نواب شاہ سے اسماعیل ڈاہری کی گرفتاری سے متعلق سوال پر کہا کہ وہ ایک چھوٹا زمیندار ہے اور میرے ووٹوں کے لیے کام کرتا ہے، میرے علاقے سے میرے بندے کی گرفتاری کسی کی ادا ہے اور ہر ادا میں ایک پیغام ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اسماعیل ڈاہری میرا کارکن ہے جسے میرے گھر کے قریب سے گرفتار کیا گیا۔آصف زرداری نے کہا کہ اگر میری کسی کیساتھ ڈیل ہوتی تو اسماعیل کو گرفتار نہ کیا جاتا بلکہ میرے کہنے پر گرفتاریاں ہوتیں۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں زیادہ تر آزاد امیدوار کامیاب ہوں گے، ہر جگہ آزاد امیدوار کھڑے ہورہے ہیں جن میں کچھ ہماری، کچھ نوازشریف اور کچھ عمران خان کی بس سے اترے ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہو سکتا ہے کسی نے ان کوجیب پر سوار کروایا ہو ۔ اب پتہ نہیں کہ وہ خود کھڑے ہوئے ہیں یا ان کو کسی اور نے کھڑا کیا ہے ۔ٹکٹ واپس کرنے کے حوالے سے آصف زرداری نے کہا ہے کہ جو پارٹی کو چھوڑ جاتے ہیں وہ پارٹی سے اپنا ووٹ بینک نہیں لے جاسکتے کیونکہ ووٹ بینک پارٹی کا رہتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آزاد امیدوار جیت گئے تووہ ڈکٹیٹ کریں گے اور اس وقت ہم پھر سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے ؟
انہوں نے کہا کہ یہ جتنا بھی کھیل لیں لیکن پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت نہیں بنے گی ۔ایک سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہاکہ ہر حال میں حکومت نہیں چاہتے لیکن جس نے بھی حکومت بنانا ہوگی اس کو ہم سے بات ضرور کرنا ہوگی۔آصف زرداری نے کہا کہ چاہتا ہوں بلاول کو پارلیمانی تجربہ ہو، وہ اپوزیشن لیڈر بھی بنے تو کوئی اعتراض نہیں، بہتر ہوگا کہ اپنی زندگی میں اسے وزیراعظم بنتا دیکھوں۔سابق صدر نے کہا کہ انتخابات میں تاخیر کی آئین میں گنجائش ہی نہیں، سیاسی جماعتوں کو الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’میں ارتقاء پر یقین رکھتا ہوں انقلاب پر نہیں، عمران خان کی مجھ پر تنقید ان کا حق ہے، خان صاحب تو کہہ چکے ہیں کہ میرے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہتے، انہوں نے خود سارے دروازے بند کردیے۔آصف زرداری نے کہا کہ ہر جگہ آزاد امیدوار کھڑے ہورہے ہیں، منظور وٹو کو کسی نے کہا کہ ان کا آخری الیکشن ہے آزاد لڑیں، منظور وٹو پیپلز پارٹی سے فارغ ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی بنی نہیں تھیں یہ بنائی گئی تھیں۔ایک سوال پر آصف زرداری نے کہا کہ بدترین جمہوریت بھی بہترین آمریت سے بہتر ہوتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ سینٹ میں جو کردار انہوں نے کیا ہے اس سے بلوچوں کو ان کا حق ملا ہے اور ہم کو بلوچوں کو ان کا حق دیتے رہنا چاہئے ۔آصف زرداری نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کے بلاول وزیر اعظم بنے اور اگر نہیں تو اپوزیشن لیڈر بھی بن سکتا ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے جانب سے مخلوط حکو مت کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ امکانات تو کسی قسم کا رد نہیں کیا جا سکتا لیکن مسلم لیگ ن نے ہم کو دھوکے بہت دیئے ہیں ٗہم کو گیس نہیں دی اور فنڈز بھی حصے سے کم دیئے ۔آصف زرداری نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ہر طرح سے سندھ کے مفادات کو نقصان پہنچایا بلکہ پانی بھی کم دیا ۔
یہ ایک مجرمانہ اقدام ہے ۔پنجاب میں پیپلز پارٹی کی صورتحال کے حوالے سے سابق صدر نے کہا کہ پنجاب میں کئی پارٹیوں کو بنایا گیا ہے جو غیر فطرتی عمل ہے جس سے وہ کوئی نہ کوئی غلطی کرتی ہے ۔ حمید گل نے ایک پارٹی بنائی تھی جس کا سربراہ عمران خان کو بنایا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ ہنگ پارلیمنٹ آنے کی صورت میں سیاسی پارٹیاں کمزور ہونگی ۔ اس وقت تمام سیاستدانوں پر نظر دوڑائی جائے تو کسی کا ماما ہمارے ساتھ تھا اور کسی کا چاچا ہمارے ساتھ تھا ۔ یہ لو گ یہاں سے دوسری پارٹیوں میں گئے یا لیکر جائے گئے ۔
دوبارہ صدر پاکستان بننے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ صدر کے اختیارات تومیں نے پارلیمنٹ کو دے دیئے ہیں اس لئے میں اب صدر بننے میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اس سے بہتر ہے کہ میں فیلڈ میں رہ کر پارٹی کے لئے کام کروں ۔ پہلے وزیر اعظم میرا اپنا تھا اور میں اس پر اثر انداز ہو سکتا تھا اور اب جب وزیر اعظم کسی اور پارٹی کا ہوگا تو میں اس پہ بالکل اثر انداز نہیں ہو سکوں گا ۔ انہوں نے کہا کہ میری نواز شریف سے کوئی خفیہ ملاقات نہیں ہوئی جبکہ مجھے نجم سیٹھی سے ملے ہوئے 10سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے ۔
نواز شریف سے ملاقات اس وقت سے نہیں ہوئی جب سے وہ مجھ سے روٹھے تھے اور مجھے کھا نے پر بلا کر پھر دعوت نامہ واپس لے لیا تھا ۔ اس کے بعد کئی دفعہ انہوں نے خفیہ پیغامات بھیجے لیکن میں ہی نہیں مانا ۔ ایسی خبر یں گمراہ کن ہیں ۔ملک ریاض کو مجھے نواز شریف کی جانب سے پیغامات دینے کی ضرورت نہیں تھی اس کے لئے خورشید شاہ بھی پیغامات دے سکتے تھے جن کے سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق سے اچھے تعلقات تھے ۔انہوں نے کہاکہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں انفراسٹرکچر کو ترقی دی ہے ۔ تھر میں آپ کو عورتیں گاڑیاں چلاتی ملیں گی۔
چینی ماہرین فصلوں پر تجربات کر رہے ہیں جبکہ دور دراز دیہات میں بجلی پہنچائی گئی ہے ۔ بنجر زمینوں کو آباد کیاگیا ہے اور یہ عمل اب بھی جاری ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے ہسپتالوں میں جدید طبی سہولیات ملیں گی ، یہ ہسپتال پنجاب کے ہسپتالوں سے بہتر ہیں۔ جی ڈی اے کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ سندھ میں جی ڈی اے بنائی گئی ہے ۔جب مجھ کو دس سال تک جیل میں رکھا گیا تو اس وقت جی ڈی اے والے سندھ حکومت میں تھے ان کے کاموں اور ہمارے کاموں کا موازنہ کر لیں۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے بد قسمتی سے پاکستان کے ساتھ بڑا ظلم کیا اور چار سال تک وزیر خارجہ نہیں بنایا
جس کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کا تاثر انتہائی منفی طور پر ابھرا اور اب اس تاثر کو تبدیل کرانا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کا طالبان پر اثر ورسوخ ہے جبکہ وہ ہم کو مورد الزم ٹھہراتے ہیں۔ اس وقت کوئی ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ نہیں ہے سوائے تاجکستان کے ۔ چائنہ ہمارے ساتھ ہے لیکن کسی دوست پر اتنا وزن نہیں ڈالنا چاہئے کہ اس کے لئے برداشت کرنا مشکل ہو جائے ۔ اس وقت ایران ہم سے ناراض ہے اور افغانستان کو ہم منا منا کر تھک گئے ہیں۔آصف زرداری نے کہا کہ ملک میں اتحادی حکومت بن سکتی ہے ۔ وزیر اعظم کا کردار چیئر مین سینٹ سے مختلف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 25جولائی کے بعد میں پاکستان میں سیاسی استحکام آتا نہیں دیکھ رہا ۔ ہر کوئی طاقت میں آنا چاہتا ہے اور ایک خاندان طاقت چھوڑنا نہیں چاہتا۔ یہ خاندان طاقت میں آیا تو ہر چیز صرف میں ہی ہوں کا مظاہرہ کیا۔ میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو پیغام دیتا ہوں کے جمہوریت کی قدر کریں اور پاکستان اللہ تعالیٰ کادیا ہوا ایک نایا ب تحفہ ہے اس لئے پاکستانیوں کو اس کی قدر کرنا چاہئے ۔