لاہور ( این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں اور اکاؤنٹس سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ پاکستان میں حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہر پیدا ہونے والا بچہ مقروض ہو گیا، بتایا جائے پاکستان کا ہر بچہ کتنا مقروض ہے؟ یہ بھی بتایاجائے دس سال میں کتنے وزرائے خزانہ نے قرضے لیے۔
گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں اور اکاؤنٹس تفصیلات کیس کی سماعت سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں کی۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان نے گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم مفاد عامہ کا اہم ترین مقدمہ سن رہے ہیں جبکہ گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکرٹری خزانہ کو پرواہ ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کے اکاؤنٹس اور اثاثوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، پچھلی دو حکومتوں نے کیا کیا، تعلیم، صحت اور پینے کے پانی کا حال دیکھ لیں، زرمبادلہ کو پاکستان سے باہر لے جانے کے لیے کوئی پابندی ہی نہیں لگائی گئی، اربوں کھربوں کا سرمایہ پاکستان سے باہر چلا گیا، برآمدات ختم اور درآمدات بڑھتی جاری ہیں، اسمگلنگ ختم نہیں کرسکے۔ شاہ عالم مارکیٹ میں بیٹھے اسمگلروں کو کوئی نہیں روک سکا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ پاکستان میں حکومتوں کی غلط پالیسیوں سے ہر نومولود مقروض ہوگیا،قرضے خود لیتے ہیں اور بوجھ ایسے بچوں پر ڈال دیتے ہیں جو پیدا بھی نہیں ہوئے، کسی کو کوئی حق نہیں کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے پاکستانی بچے کو مقروض کر دے، بتایا جائے کہ ہر پاکستانی بچے پر کتنا قرض ہے، یہ بھی بتایا جائے کہ دس سالوں میں کتنے وزرائے خزانہ نے قرضے لیے اور غیر ملکی دورے کیے؟۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ کون کہتا ہے کہ ہم نے ایمنسٹی اسکیم کو رد کر دیا ہے، یہ معاملہ تو ہمارے سامنے آیا ہی نہیں، سوئٹزر لینڈ میں پڑے پاکستانیوں کے اربوں کھربوں کے بارے میں کیا کھوج لگایا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔