کراچی(سی پی پی) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم بنانے سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور اپنا کردار ادا کرے گی۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں لارجر بینچ کالا باغ ڈیم بنانے سے متعلق بیرسٹر ظفر اللہ خان کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت پاکستان میں بحث کالا باغ ڈیم کی نہیں کر رہے، ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ پانی کیقلت کیسے ختم ہوگی۔جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ معلوم ہے آئندہ وقتوں میں پانی کی اہمیت کیا ہوگی لیکن 4 بھائی جس پر متفق نہیں تو پھر متبادل کیا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے پانی کی قلت کے خاتمے کا تہیہ کر لیا ہے، ہم ایک ٹیم بنا دیتے ہیں جس میں اعتزاز احسن اور دیگر ماہرین کی خدمات لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اب سپریم کورٹ ڈیمز بنانے سے متعلق آگے بڑھے گی اور کردار ادا کرے گی، عید کے بعد سپریم کورٹ کا لا اینڈ جسٹس ڈیپارٹمنٹ سیمینار کرائے گا، ماہرین تجاویز دیں بیٹھ کر ایس او پیز بنائیں گے۔چیف جسٹس نے درخواست گزار کو کہا کہ بتایا جائے ملک میں ڈیمز کس طرح بنائے جائیں، آپ سفارشات دیں ہم پارلیمنٹ سے سفارش کریں گے، جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ قانون بنانے کی صلاحیت ملک میں ختم ہو چکی ہے، لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے قانون بنا کر پارلیمنٹ کو سفارش کی جاسکتی ہے، قوم اختیار دے تو سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔دوران سماعت سابق چیئرمین واپڈا ظفر محمود عدالت میں پیش ہوئے جن سے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ بتائیں پانی کی قلت کیسے پوری کریں جس پر انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم بنانے پر لوگوں کو مکمل آگاہی نہیں اور اسی تنازع کے بعد واپڈا کی چیئرمین شپ سے استعفا دیا تھا۔ ظفر محمود نے کمرہ عدالت میں پروجیکٹر کے ذریعے کالا باغ ڈیم پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ماحولیات کی تبدیلی پرپاکستان میں سیلاب آنا شروع ہوئے،
گلیشیر تیزی سے پگھلنا شروع ہو چکے ہیں۔سابق چیئرمین واپڈ نے کہا کہ بھارت نے راوی، ستلج اور بیاس کے پانی پر قبضہ کرلیا ہے اور انڈس واٹر معاہدے سے بھی خطرات ہو چکے ہیں، جب سیلاب آتا ہے تو بھارت پانی چھوڑ سکتا ہے جب کہ بھارت کے ڈیمز میں تکنیکی طور پر زیادہ پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ظفر محمود نے کہا کہ ڈیمز بنانے سے متعلق ہم نے کوتاہی کی جس پر چیف جسٹس نےاستفسار کیا کہ کیا
حکومتوں کو ان کا ادراک نہیں رہا جس پر ظفر محمود کا کہنا تھا کہ تمام حکومتیں ہی اس مجرمانہ غفلت کی ذمے دار ہیں، بھارت تسلسل کے ساتھ پانی بند کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ اس حوالے سے ہمیں مزید تنگ کرے گا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ زندگی کے لیے سب سے زیادہ پانی کی اہمیت ہے، یہ بتائیں عدالت اس میں کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔سابق چیئرمین واپڈا نے کہا کہ کوئٹہ کا پانی اتنا نیچے جا چکا
بحالی میں 200 سال لگیں گے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 10 سال بعد تو کوئٹہ میں پینے کا پانی نہیں ہوگا تو لوگوں کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑے گی۔ظفر محمود نے کہا کہ لوگوں میں پانی کے استعمال اور بچت پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے، صنعتی ماحول سے زیر زمین پانی بھی خراب ہو رہا ہے، صنعتوں سے متعلق کوئی مربوط پالیسی نہیں، سابق چیئرمین واپڈا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ معلوم ہے صنعتیں فضلہ صاف کرنے کے بجائے نالوں میں پھینک رہی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ لاکھوں گیلن گندا پانی سمندر میں جا رہا ہے جس پر ظفر محمود نے کہا کہ اس کا حل یہ ہے کہ صنعتی فضلے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ بنائے جائیں۔