اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، کالم نگار اور تجزیہ کار جاوید چوہدری اپنےتازہ کالم میں لکھتے ہیں کہ شبنم کیس میں ادکارہ شبنم دبائو میں آچکی تھیں اور مجرموں کو سزا نہیں دلوانا چاہتی تھی کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ اس طرح مجرموں کے خاندان اس کے دشمن بن جائیں گے۔ صحافی آج تک شاہ صاحب سے پوچھتے ہیں ”آپ شبنم کے وکیل تھے‘ آپ کی جرح
پر ملزموں کو سزائے موت ہوئی تھی پھر آپ نے ملزموں کےلئے اپیل کیوں کی؟“ میں نے بھی شاہ صاحب سے یہ سوال کیا‘ ایس ایم ظفر نے دو وجوہات بتائیں‘ ان کا کہنا تھا” میں سزائے موت کے خلاف ہوں‘ میں نہیں چاہتا تھا میری وجہ سے کوئی شخص پھانسی چڑھ جائے‘دوسری وجہ شبنم تھی‘ شبنم بھی نہیں چاہتی تھی ملزموں کو پھانسی ہو‘ وہ کہتی تھی اس سے ان کے خاندانوں کے ساتھ دشمنی ہو جائے گی اور ہم یہ نہیں چاہتے چنانچہ میں نے جنرل ضیاءالحق کو خط تحریر کر دیا“ یہ وضاحت اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے شبنم سے لے کر ایس ایم ظفر کے خط اور جنرل ضیاءالحق کی منظوری تک فاروق بندیال کے ماموں ایف کے بندیال نے اہم کردار ادا کیا ‘ یہ بااثر ترین بیوروکریٹ تھے‘ جنرل ضیاءالحق انہیں ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ درخواست فوراً منظور ہو گئی ورنہ ایس ایم ظفر نے کتنے فیصلوں کے بعد ملزموں کی معافی کےلئے درخواستیں کیں اور کتنی درخواستیں منظور ہوئیں؟ یہ بہرحال ملزم کے ماموںکا ڈنڈا تھا چنانچہ شبنم کو پورا انصاف نہ مل سکا‘ ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی‘ جیل میں بھی انہیں رعایتیں ملیں اور یہ دو برس میں رہا ہو کر گھر واپس آ گئے اور خاندان نے ڈھول بجا کر ان کا استقبال کیا۔یہ کیس شبنم کا کیریئر‘ توانائی اور جذبہ تینوں کو نگل گیا‘ یہ فلم انڈسٹری سے پسپا ہوئی‘تنہائی کا شکار ہوئی اور آخر میں والدین کے پاس
بنگلہ دیش جانے کا فیصلہ کر لیا‘ ایف کے بندیال اس وقت بھی موجود تھے چنانچہ حکومت نے شبنم کو بنگلہ دیش جانے کی اجازت نہ دی‘ شبنم دو سال وزارت خارجہ کے این او سی کے لئے ماری ماری پھرتی رہی یہاں تک کہ اس نے حکومت کو لکھ کر دے دیا ”میرے والدین بیمار ہیں‘ مجھے ایک بار ان سے ملاقات کی اجازت دے دی جائے‘ میں وعدہ کرتی ہوں‘ میں واپس آؤں گی“ یہ درخواست
اوپر تک گئی اور شبنم کو صدر کی ہدایت پر بنگلہ دیش جانے کی اجازت دی گئی‘یہ ڈھاکہ گئی اور پھر اپریل 2012ءمیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کےلئے پاکستان آئی‘ شبنم کا بیٹا رونی ڈکیتی کی واردات کے بعد امریکا شفٹ ہو گیا‘ یہ کبھی دوبارہ پاکستان نہیں آیا‘ روبن گھوش13فروری 2016ءکوانتقال کر گیا یوں اس کیس کے بعد شبنم ماضی کا قصہ بنتی چلی گئی۔