اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ملک کے معروف صحافی ، کالم نگار اور تجزیہ کار جاوید چوہدری اپنےتازہ کالم میں لکھتے ہیں کہ اگر 1970ءاور 1980ءکا زمانہ دیکھا ہو تو آپ اچھی طرح فیصلہ کر سکتے ہیں پاکستانی اداکار اور اداکارائیں اس وقت ملک کی مقبول ترین شخصیات ہوتی تھیں اور شبنم ان میں پہلے نمبر پر آتی تھی‘ شبنم گلبرگ لاہور میں رہتی تھی‘ سینکڑوں لوگ سارا سارا
دن جھلک دیکھنے کےلئے اس کے گھر کے سامنے کھڑے رہتے تھے لیکن پھر 12فروری 1978ءکو پانچ لوگ شبنم کے گھر میں داخل ہوئے اور اس کا کیریئراور شخصیت دونوں تباہ ہو گئے‘ وہ لوگ شام سے گھر کے سامنے منڈلا رہے تھے‘ وہ پوری رات ماحول کا اندازہ کرتے رہے اور صبح چار بجے جب پورا گلبرگ گہرے کہرے میں گم تھا‘ یہ لوگ شبنم کے گھر میں داخل ہو گئے‘ ملزموں نے شبنم‘ روبن گھوش اور رونی گھوش کو اکٹھا کیا‘ ان کے سر پر پستول رکھا اور پانچ لاکھ روپے طلب کئے‘ ملزموں نے رقم نہ ملنے کی صورت میں رونی گھوش کو اغواءکرنے کی دھمکی دے دی۔جنرل ضیاءالحق بھی شبنم کے فین تھے چنانچہ پولیس پر دباؤ آیا اور پولیس نے 36 گھنٹوں میں ملزمان گرفتار کر لئے۔ جاوید چوہدری ایک جگہ لکھتے ہیں فاروق بندیال خوشاب کی تگڑی زمین دار فیملی سے تعلق رکھتا تھا‘یہ گاؤں بندیال کا رہنے والا تھا‘ اس کے ماموں ایف کے بندیال اس وقت چیف سیکرٹری تھے‘ ملزم گرفتار ہو گئے لیکن پولیس اور شبنم کا خاندان شدید دباؤ میں آ گیا‘ ہمارے سینئر بتایا کرتے تھے چیف سیکرٹری کے پریشر کی وجہ سے آبروریزی کا الزام دبا دیا گیا‘ شبنم بھی اس معاملے میں خاموش تھی‘ میں نے تین دن پہلے شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر کو فون کیا‘ شاہ صاحب کا کہنا تھا ”کیس میں کسی جگہ آبروریزی کاالزام نہیں تھا‘شبنم نے میرے بار بار پوچھنے پر بھی مجھے نہیں بتایا‘
پولیس کو بھی تفتیش کے دوران اس قسم کا کوئی اشارہ نہیں ملا‘ شبنم نے میڈیکل ٹیسٹ بھی نہیں کرایا تھا چنانچہ یہ الزام غلط ہے“ حکومت نے ملزموں کی گرفتاری کے بعد سپیشل فوجی عدالت بنادی‘ ملزم عدالت کے سامنے پیش ہوئے اور عدالت نے انہیں سزائے موت سنا دی‘ سزا کے چند ہفتے بعد شبنم کے وکیل ایس ایم ظفر نے جنرل ضیاءالحق کو خط لکھا اور ملزمان کی سزا معاف
کرنے کی درخواست کی۔ جنرل ضیاءالحق نے یہ درخواست منظور کر کے ملزمان کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی‘ ایس ایم ظفر کا یہ خط بعد ازاں متنازعہ ہو گیا‘ صحافی آج تک شاہ صاحب سے پوچھتے ہیں ”آپ شبنم کے وکیل تھے‘ آپ کی جرح پر ملزموں کو سزائے موت ہوئی تھی پھر آپ نے ملزموں کےلئے اپیل کیوں کی؟“ میں نے بھی شاہ صاحب سے یہ سوال کیا‘
ایس ایم ظفر نے دو وجوہات بتائیں‘ ان کا کہنا تھا” میں سزائے موت کے خلاف ہوں‘ میں نہیں چاہتا تھا میری وجہ سے کوئی شخص پھانسی چڑھ جائے‘دوسری وجہ شبنم تھی‘ شبنم بھی نہیں چاہتی تھی ملزموں کو پھانسی ہو‘ وہ کہتی تھی اس سے ان کے خاندانوں کے ساتھ دشمنی ہو جائے گی اور ہم یہ نہیں چاہتے چنانچہ میں نے جنرل ضیاءالحق کو خط تحریر کر دیا“ یہ وضاحت اپنی
جگہ لیکن یہ حقیقت ہے شبنم سے لے کر ایس ایم ظفر کے خط اور جنرل ضیاءالحق کی منظوری تک فاروق بندیال کے ماموں ایف کے بندیال نے اہم کردار ادا کیا ‘ یہ بااثر ترین بیوروکریٹ تھے‘ جنرل ضیاءالحق انہیں ہاتھ میں رکھنا چاہتے تھے۔چنانچہ درخواست فوراً منظور ہو گئی ورنہ ایس ایم ظفر نے کتنے فیصلوں کے بعد ملزموں کی معافی کےلئے درخواستیں کیں اور کتنی درخواستیں منظور ہوئیں؟ یہ بہرحال ملزم کے ماموںکا ڈنڈا تھا چنانچہ شبنم کو پورا انصاف نہ مل سکا‘ ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل ہوئی‘ جیل میں بھی انہیں رعایتیں ملیں اور یہ دو برس میں رہا ہو کر گھر واپس آ گئے اور خاندان نے ڈھول بجا کر ان کا استقبال کیا۔