کوئٹہ(سی پی پی) بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں حقوق انسانی کی کارکن جلیلہ حیدر ایڈووکیٹ نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کردی،اس سلسلے میں بھوک ہڑتالی کیمپ کوئٹہ پریس کلب کے باہر قائم کیا گیا ہے۔ شرکاء نے تادم مرگ بھوک ہڑتال ان دو دکانداروں کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعے کے بعد شروع کی جن کو سینیچر کے روز شہر کے مصروف ترین علاقے جمال الدین افغانی روڈ پر فائرنگ کرکے ہلاک کیا گیا تھا۔
جلیلہ حیدر نے بتایا کہ ایک مرتبہ پھر گذشتہ ایک ماہ سے ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تیزی آئی ہے۔برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق اگرچہ بلوچستان سے جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف پہلے بھی خواتین بھوک ہڑتال کرتی رہی ہیں لیکن جلیلہ حیدر پہلی خاتون ہیں جنھوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک بھوک ہڑتال کا سلسلہ جاری رکھیں گی جب تک پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ بذات خود یہاں نہیں آتے۔ان کا کہنا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ کی وجہ سے ہزارہ قبیلے کے دس ہزاربچے یتیم ہوچکے ہیں۔ حکمرانوں کو آنا ہو گا اور ان بچوں کو جواب دینا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ حکمرانوں کو آکر یہ بناتا ہوگا کہ ہزارہ قوم کو جنگی معیشت کی بھینٹ کیوں چڑھایا جارہا ہے۔جلیلہ حیدر کے مطابق ایک سازش کے تحت بلوچستان میں لوگوں کو تقسیم کیا جارہا ہے۔جمال الدین افغانی روڈ پر ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو دکانداروں کی ہلاکت کے خلاف ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کے علاوہ دیگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے بھی قندہاری بازار اور مغربی بائی پاس پر احتجاج کیا تھا۔کوئٹہ شہر میں 30 گھنٹوں کے دوران ٹارگٹ کلنگ کا یہ دوسرا واقعہ تھا۔اس سے قبل طوغی روڈ پر نامعلوم مسلح افراد نے سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی عالم کے چھوٹے بھائی کو ایک دکان پر فائرنگ کرکے ہلاک کیا تھا۔رواں ماہ کے دوران شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افرادپر مجموعی طور پرٹارگٹ کلنگ کے چار حملے ہوئے۔ان میں سے تین واقعات میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا جن میں پانچ افراد ہلاک اور دو زخمی ہوگئے۔