لاہور( این این آئی )پنجاب کے ایک کروڑ سے زائد آبادی والے صوبائی دارالحکومت لاہور میں پینے کا صاف پانی محض اگلے دس برس میں ختم ہونے کے خدشے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے ۔پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر غلام ذاکر سیال نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر زیر زمین پانی کو بچانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے دس برس میں لاہور شہر میں پینے کا صاف پانی ختم ہو سکتا ہے۔
لاہورمین زیر زمین پانی کی سطح سالانہ اوسطاًاڑھائی فٹ نیچے جا رہی ہے۔ کئی مقامات پر پانی کی سطح 100 فٹ سے بھی نیچے جا چکی ہے جو کہ قدرتی حد سے کم ہے اور یہ پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔پینے کے قابل پانی حاصل کرنے کے لیے زمین میں پانچ سے سات سو فٹ تک بورنگ یا کھدائی کی جا رہی ہے جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی صرف 1000 فٹ تک موجود ہے۔واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر زاہد عزیز کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کا ذخیرہ سکڑ رہا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال کے پیش نظر حکومت منصوبہ بندی کر چکی ہے۔لاہور میں نہر پر پانی کو صاف کر کے استعمال کرنے کا ایک پلانٹ لگایا جائے گا جو تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔ اس سے روزانہ 100 کیوسک پانی نکالا جائے گا جبکہ ہمارا ہدف 2035 تک اس کو 1000 کیوسک تک لے کر جانا ہے۔نہر منصوبے کا ایک حصہ ہے جبکہ دوسرے حصے میں دریائے راوی پر ایک ڈیم تعمیر کیا جائے گا جس میں پانی لا کر چھوڑا جائے گا۔ اس ڈیم سے ہم مزید 900 کیوسک پانی نکالیں گے جو ہماری روزانہ کی ضروریات کو پورا کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاہور میں فی فرد پانی کی فراہمی موجودہ 70 گیلن روزانہ ہے جو جنوبی ایشیا ء میں سب سے زیادہ ہے۔اب ہمارا ارادہ یہ ہے کہ گھروں میں میٹر لگائے جائیں اور اس کو 40 گیلن تک لایا جائے۔اس وقت پانی کے 7لاکھ کنکشن ہیں جن میں پچاس ہزار پر میٹر لگائے جا چکے ہیں اور ہدف ہے کہ آئندہ تین برس میں تمام کنکشنز پر میٹر نصب ہو جائیں۔
اس کے بعد ہم ایسا طریقہ کار اپنائیں گے کہ جس حساب سے لوگ پانی استعمال کریں اس حساب سے بل بھیجا جائے اور جو پانی کم استعمال کرے اس کو مراعات بھی دی جائیں۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پانی کے استعمال میں احتیاط برتنی ہو گی تاکہ پانی کے ذخیرے کو آئندہ نسلوں کے لیے بھی بچایا جاسکے۔پنجاب کے زراعت کے تحقیقاتی ادارے کی ایک حالیہ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق واسا نے 150 سے 200 میٹر کی گہرائی پر 480 ٹیوب ویل لگا رکھے ہیں۔
جو روزانہ 1170 کیوسک پینے کا پانی نکال رہے ہیں۔رپورٹ میں جن بنیادی وجوہات کی نشاندہی کی گئی ہے جو زیر زمین پانی کی کمی کا سبب بن رہی ہیں ان میں بنیادی مسئلہ حد سے زیادہ پانی پمپ کیا جانا ہے۔اس کے علاوہ دریائے راوی میں پانی کی روانی میں کمی اور نکاسی کے پانی کی ذریعے صاف پانی میں آلودگی کی ملاوٹ اور زیر زمین ذخیرے کی بحالی نہ ہونا بڑی وجوہات ہیں۔
پنجاب اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر غلام ذاکر سیال نے کہا کہ ہمارا پانی کا بجٹ منفی میں ہے یعنی ہم جتنا پانی زمین سے نکال رہے ہیں اتنا واپس نہیں جا رہا۔واسا کے 1100 سے زائد کیوسک پانی کے علاوہ نجی ہاؤسنگ سکیموں میں لگے ٹیوب ویل روزانہ 100 کیوسک اور صنعتیں 375 کیوسک پانی نکال رہی ہیں۔ اس طرح لاہور میں زمین سے نکالے جانے والا پانی روزانہ اوسط مقدار 1645 کیوسک سے زائد ہے۔
زمین کے نیچے موجود پانی کا ذخیرہ جسے ایکوی فائیر بھی کہتے ہیں دراصل ایک پیالے کی مانند ہے۔ ہم جتنا پانی اس پیالے سے نکالتے ہیں، اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ اتنا ہی پانی اس میں واپس بھی جائے لیکن لاہور میں ایسا نہیں ہو رہا۔غلام ذاکر سیال نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ 100 فٹ پر جا کر پانی تو مل جاتا ہے مگر یہ پانی صاف نہیں اس لیے صاف پانی حاصل کرنے کے لیے مزید گہرائی میں جانا پڑتا ہے۔
کئی مقامات پر لاہور میں 600 سے 700 فٹ تک بورنگ کی جا رہی ہے تب جا کر صاف پانی ملتا ہے۔پانی کا زیر زمین ذخیرہ محض 1000 فٹ گہرا ہے یعنی اس سے نیچے پانی موجود نہیں ہے تاہم جس قدر کھدائی بڑھائی جائے گی اتنا زیادہ پانی میں آرسینک یعنی سنکھیا ملنے کا خطرہ ہے۔غلام ذاکر سیال نے مزید کہا کہ زیر زمین پانی کے ذخیرے کو بحال کرنے کے لیے سب سے بڑا ذریعہ دریائے راوی تھا ۔
مگر اس میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پانی بتدریج کم ہوا ہے۔اس کے علاوہ تین بڑے نکاسی کے ڈرین دریا میں گرتے ہیں جن کے باعث پانی میں ہر قسم کی ٹھوس اور مایہ آلودگی شامل ہوتی ہے جو گھروں اور صنعتوں سے نکلتی ہے۔ جب یہ پانی زیر زمین جاتا ہے تو صاف پانی کی اوپری سطح کو آلودہ کرتا ہے۔ اس طرح وہ پینے کے قابل نہیں رہتا۔غلام ذاکر سیال کے مطابق جتنی آلودگی زیادہ ہوگی اتنی گہرائی میں پہنچے گی اور نتیجتاًبورنگ زیادہ گہری کرنی پڑے گی تا کہ صاف پانی تک پہنچا جا سکے۔