اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب ’’سچ تو یہ ہے!‘‘میں پاکستانی سیاست اور ایوان اقتدار میں پیش آنے والے واقعات سے پردہ اٹھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سندھ آپریشن کے دوران کسی محفل میں وفاقی زیر صدیق کانجو، میاں عبدالستار لالیکا اور رانا شاہد سعید میں سے کسی نے کہہ دیا کہ ہم جنرل آصف نواز کو’’جنرل گل حسن‘‘بنا دینگے، یہ بات کسی نہ کسی
طرح جنرل آصف نواز تک بھی جا پہنچی۔ ایک روز ایوان صدر میں کھانا تھا، جنرل آصف نواز اور میں ایک ہی میز پر بیٹھے تھے، اچانک انہوں نے پوچھا کہ یہ صدیق کانجو اور رانا شاہد سعید کہاں بیٹھے ہیں، میں نے پوچھا کیا بات ہے؟کہنے لگے دونوں کو سمجھا دیں انسان بنیں۔ واپسی پر رانا شاہد سے آمنا سامنا ہوا تو جنرل آصف نے کہا کہ میں آپ کو ہی ڈھونڈ رہا تھا اس پر رانا شاہد گھبرا گئے، شام کو میرے پاس آئے اور پوچھا کیا بات تھی، ساری بات بتائی تو مزید پریشان ہو گئے۔ پھر قسم کھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ میں نے جنرل آصف نواز سے رابطہ کر کے ان کی معافی تلافی کرا دی۔ جنرل آصف نواز کی اچانک موت کے بعد نئے آرمی چیف کی تعینات پر صدر غلام احساق اور نواز شریف میں اختلافات پیدا ہو گئے۔ چوہدری نثار اور جنرل(ر)عبدالمجید ملک اور سعید مہدی نئے آرمی چیف کا مشورہ دے رہے تھے میں نے کہا کہ آپ ’’میرے تیرے‘‘کے چکر میں نہ پڑیں اور جو سینئر ترین دو جنرل ہیں ان کے نام صدر کو بھجوا دیں۔ بعد میں پتہ چلا صدر نے جنرل وحید کاکڑ کو آرمی چیف بنا دیا جو سنیارٹی لسٹ میں چھٹے یا ساتویں نمبر پر تھے۔چوہدری شجاعت لکھتے ہیں کہ جیل میں شیخ رشید انتہائی دبنگ طریقے سے رہتے تھے اور اکثر جیل انتظامیہ تک سے لڑ پڑتے تھے جبکہ اعجاز الحق ان کے بالکل برعکس تھے۔