منگل‬‮ ، 04 فروری‬‮ 2025 

ایک پولیس آفیسر نے جب نواز شریف کا حکم ماننے سے انکار کیا تو اس کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا؟ سینئر صحافی نے حیرت انگیز انکشاف کر دیا

datetime 29  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سینئر صحافی و معروف کالم نگار رؤف کلاسرا نے اپنے کالم میں لکھا کہ سرائیکی علاقے سے نواز لیگ کے نوجوان ایم این اے‘ جو کبھی جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کی کابینہ میں جونیئر وزیر تھے، بڑے عرصے بعد ملے۔ ارشد شریف، انور بیگ اور میں ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے تھے۔ بیگ صاحب پر نظر پڑی تو ان سے ہاتھ ملانے آ گئے۔ ارشد اور میں نے توجہ نہ دی۔ انور بیگ نے مجھے مخاطب کر کے کہا: جناب آپ کے علاقے کے ہیں۔ مجھے یاد آیا‘

موصوف ہر پانچ سال بعد نیا گھونسلا ڈھونڈتے ہیں۔ جنرل مشرف کا گھونسلا پرانا ہوا تو ق لیگ سے اڑ کر زرداری صاحب کے ساتھ مل گئے۔ زرداری کا گھونسلا زمین بوس ہوا تو رائیونڈ کے گھونسلے میں پناہ لے لی۔مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا: آپ کو ڈھونڈ رہا تھا‘ کچھ مشورے اور گپ شپ کرنی ہے۔ میں نے کہا: خیریت؟ آپ سے پانچ سال بعد ملاقات ہو رہی ہے۔ اب آپ کو یاد آ گیا کہ اسلام آباد شہر میں اگر کوئی سیانا ہے تو وہ میں ہوں جس سے مشورہ نہ ہوا تو آپ کا پورا سیاسی کریئر داؤ پر لگ جائے گا؟ وہ کچھ شرمندہ ہوئے اور بولے: ایسی بات نہیں ہے۔میں نے کہا: ان پانچ برسوں میں آپ کو نواز شریف برا نہ لگا تو اب کیوں لگ رہا ہے۔ سرائیکی علاقوں کے بارے میں آپ نے ایک دفعہ بھی اسمبلی میں بات نہ کی۔ وہ بولے: ابھی وقت نہیں آیا کہ ان ظالم قوتوں سے لڑا جائے جو سرائیکیوں کا استحصال کر رہی ہیں۔ پھر بھرپور قہقہہ لگایا اور کہا: آپ تو جانتے ہیں کہ ہم سرائیکی کوئی اتنے لڑاکا نہیں ہیں کہ حقوق کے لیے لڑیں۔ میں نے کہا: یہ تو پہلا سچ ہے‘ جو آپ نے بولا ہے۔ واقعی آپ لوگوں میں تو جرا?ت نہیں ہے۔ وہ بولے: آپ تو جانتے ہیں کہ میں قومی اسمبلی میں بھی چپ رہا۔ میں نے کہا: جیسے پانچ سال قومی اسمبلی میں ایک گونگے کی طرح گزارے اور کبھی مشورہ نہ کیا تو اب کیا کریں گے مجھ سے مشورہ کر کے؟ انہوں نے بغیر شرمندہ ہوئے بڑا قہقہہ لگایا۔

ارشد شریف اور انور بیگ حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ کس طرح کی گفتگو ہے جو سرائیکی میں ہو رہی ہے۔ معروف صحافی رؤف کلاسرا نے مزید لکھا کہ یہ سب نئے ٹھیکیدار ہیں سرائیکی علاقوں کی سیاست کے۔ ان نوجوانوں نے باہر سے پڑھائی کرنے کے بعد یہ سوچا کہ باپ دادا مر کھپ گئے۔ اب ان کی زندگی ہے اور ان کا سیاسی کیریئر۔ ان کے اندر مزاحمت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ اسلام آباد اور لاہور کے ہر دربار کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ان نوجوان نے سوچ لیا ہے کہ پیسہ اور اقتدار ہی سب کچھ ہے۔

یہ ہر حکومت میں وزیر بن جائیں گے یا پھر پچاس کروڑ‘ ایک ارب روپے تک ترقیاتی فنڈ کے نام پر پیسہ پکڑ لیں گے۔ پھر مقامی سطح پر تھانیدار، ڈی پی او اور کوئی مریل سا ڈپٹی کمشنر ان کا اپنا بندہ ہوگا جو ان کے اشاروں پر ناچے گا۔ یہ خود اسلام آباد اور لاہور کے دربار میں حاضری دیتے ہیں اور مودب رہتے ہیں اور واپسی پر اپنے ڈیرے پر ڈی پی اور ڈپٹی کمشنر کو بلوائیں گے اور غریبوں پر ظلم ڈھائیں گے۔ ایک عزت دار پولیس افسر شارق کمال صدیقی نے بہاولنگر کے ایم این اے عالم داد لالیکا کے

ڈیرے پر جانے سے انکار کیا تو (سابق) وزیراعظم نواز شریف نے ان کی صوبہ بدری کے احکامات جاری کر دیے کہ کس گستاخ کی جرات ہوئی کہ ہمارے ایک مودب سیاسی چیلے کے گھر جا کر کھانا نہ کھائے۔ وہی بیورو کریسی جس نے کرپٹ بیورو کریٹ احد چیمہ کی گرفتاری پر ہڑتال کر دی تھی‘ اسے جرات نہ ہوئی تھی کہ وہ شارق کمال صدیقی کا بھی ساتھ دیتی۔ ہمارے سرائیکی علاقوں کے ایم این ایز ہوں یا ایم پی ایز‘ سب سمجھدار ہیں۔ ان میں سے اکثریت رائیونڈ اور اسلام آباد کے دربار میں سیاسی سجدے کرتی ہے

لیکن اپنے اپنے علاقوں میں یہ لوگ ظالم بن جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کو ہر وقت نچاتے ہیں۔ اور جونہی حکومت جانے کا وقت آتا ہے تو یہ سب نیا گھونسلا تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اب جبکہ حکومت ختم ہونے میں کچھ ہفتے یا دو ایک ماہ باقی ہیں تو ان کی نئے آقا کی تلاش شروع ہے۔ارشد شریف نے پوچھا: یہ موصوف آپ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ میں ہنس پڑا اور کہا: بھولے بادشاہو! آپ ابھی تک بھی نہیں سمجھے؟ ہمارے سرائیکی علاقو ں کے یہ پڑھے لکھے سیاستدان سمجھ چکے ہیں کہ

نواز شریف اور شہباز شریف کا دور ختم ہوا۔ اب یہ سیاسی بٹیرا چاہتا ہے کہ میں اسلام آباد کے تیزی سے بدلتے سیاسی موسم میں اس کی رہنمائی کروں کہ ہوا کا رخ کس طرف ہے۔ فوج اور عدلیہ کیا سوچ رہی ہیں۔ بیورو کریسی کس طرف بھاگ رہی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز کو کتنی سزا ہو گی اور کیا اب شریف خاندان کا سیاسی مستقبل واقعی ختم ہو چکا اور یہ کہ نیا لیڈر کون ابھر رہا ہے، شہباز شریف کے کیا امکانات ہیں، اب یہ سب کس کو وفاداری کا حلف دیں اور کس نئے سیاسی گھونسلے میں جا کر انڈے یا بچے دیں؟

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



رانگ ٹرن


رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…