اتوار‬‮ ، 29 جون‬‮ 2025 

جناب والا! اگر آپ کو اس چیز کی تلاش ہے تو یہ رانا ثناء اللہ کے زیر قبضہ اس سرکاری ریسٹ ہاؤس کے احاطے میں دفن ہے۔ نامور کالم نگار نے تہلکہ خیز انکشاف کر دیا

datetime 14  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور (نیوز ڈیسک) اگر آپ کو اس چیز کی تلاش ہے تو یہ رانا ثناء اللہ کے زیر قبضہ اس سرکاری ریسٹ ہاؤس کے احاطے میں دفن ہے، ان خیالات کا اظہار معروف کالم نگار منیر احمد بلوچ نے اپنے کالم میں کیا انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایک نئی آزاد ریا ست کی مہم شروع ہو چکی ہے تو دوسری جانب اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمان کھل کر میاں محمد نواز شریف کی حمایت میں جوڈیشری کے خلاف کھڑے ہو ئے ہیں اور آپ جلد ہی پی پی پی کو بھی اس دوڑ میں ان کے قدم سے قدم ملاتے ہوئے دیکھ سکیں گے

جس کا آغاز سینیٹر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ کا فلور استعمال کرتے ہوئے بڑے ٹیکنیکل طریقے سے کر دیا ہے۔تیسری جانب مسلم لیگ نواز عدلیہ اور فوج پر براہ راست حملے کرتے ہوئے ملکی اداروں اور سالمیت کو کچلنے کیلئے پنجاب اور اسلام آباد کی انتظامی اور مالی طاقت کا کھلم کھلا استعمال کرتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ چیئر مین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے مشترکہ طور پر اداروں کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے، ان سب نے بیک ڈور چینلز کے ذریعے اس امر پر اتفاق کر لیا ہے کہ کمزور جو ڈیشری ان سب کیلئے فائدہ مند رہے گی اور اگر جوڈیشری جو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو نے کی کوشش کر رہی ہے اسے اگر ابتدا میں ہی نہ روکا گیا توان سب کی سیا ست اور تجارت زمین بوس ہو جائے گی۔ آنے والے وقتوں میں من مانی تو ایک طرف انہیں گزشتہ تیس سال سے کی گئی من مانیوں کا حساب بھی دینا پڑ جائے گا۔ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے مالی مفادات سے وابستہ پنجاب میں سب سے اہم اور طاقت ور ترین کردار احد خان چیمہ کی احتساب بیورو کے ہاتھوں گرفتاری نے ان سب کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے ہیں۔ اٹک سے صادق آباد تک جاتی امرا اور ماڈل ٹاؤن سے وابستہ پنجاب کی طاقتور بیوروکریسی کی سنگلاخ دیواروں کو احد چیمہ کی گرفتاری نے زبردست جھٹکا لگاتے ہوئے اس نشہ سے بیدار کر دیا ہے جو بقول وزیر اطلاعات مریم نواز مسلم لیگ کے کارکنوں کی شکل اختیار کر جانے والی بیورو کریسی میں سرایت کر چکا ہے۔

انہوں نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ جیسے ہی میاں نواز شریف اسلام آباد کی احتساب کورٹ سے باہر نکلے تو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جہاں انہوں نے اٹھائیس جولائی سے اب تک کی کارروائی کا تمسخر اڑاتے ہوئے ’’بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گو کہ ان کی زبان سے یہ لفظ کچھ عجیب سا لگا لیکن رش میں چونکہ سب کچھ چل جاتا ہے اس لئے کسی نے دھیان ہی نہ دیا کہ ان کی زبان میں یہ نیا لفظ کس نے ڈالا ہو گا۔ بلیک لاء ڈکشنری کے الفاظ کو انہوں نے اپنی میڈیا ٹاک میں تین سے زائد مرتبہ دہرایا

اس لئے یہ سنتے ہی سب نے اس ڈکشنری کو ڈھونڈنے کی کوششیں کیں توکسی نے بتایا کہ بلیک لا ڈکشنری کو فیصل آباد کے اس ریسٹ ہاؤس میں تلاش کیا جائے جہاں شہنشاہ وقت کی کھلی کچہری میں ایک اعلیٰ صوبائی افسر سے ناراض ہونے کے بعد بغیر کسی ایف آئی آر کے سینکڑوں لوگوں کے سامنے اسے ہتھکڑیاں لگا کر سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ اپنے واحد سرکاری چینل پر اس کو ہتھکڑیاں لگیں‘ فلمیں پاکستان بھر کو دکھائی گئیں‘ جب ساٹھ سالہ اس افسر کو دونوں ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگا کر اسے فیصل آباد کی سڑکوں پر گھمایا جا رہا تھا

تو اس کی بوڑھی ماں نے آسمان کی جانب نظریں اٹھاتے ہوئے اپنے رب سے آنسو بھری خاموش التجا کی جو فوری طور پر تو نہیں لیکن ایک سال بعداکتوبر1999 میں قبول ہوئی۔ شائد خدا اس سفید بالوں والے سرکاری افسر کی بوڑھی اور نیک ماں کو باور کرانا چاہتا تھا کہ اس کے ہاں دیر ہو سکتی ہے اندھیر نہیں۔سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو آج 28 برس بعد اگر اپنی کھوئی ہوئی متاع’’بلیک لاء ڈکشنری‘‘ کی یاد ستائی ہے۔ تو اس کیلئے انہیں کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ فیصل آباد میں اپنے وزیر قانون رانا ثنا اللہ کی لائبریری یا اس سے ملحقہ اس ریسٹ ہاؤس میں آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں،

پارلیمنٹ کا کوئی انتہائی با اثر رکن کسی ایسی زمین یا عمارت پر قبضہ کر لے جس پر سکول یا ہسپتال تعمیر کیا جا نا تھا اور ملک کی عدلیہ اس قبضے کو نا جائز قرار دیتے ہوئے اسے واگزار کرانے کا حکم دیتی ہے تو کیا سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو بلیک لاء ڈکشنری کہا جا سکتا ہے؟۔ سپریم کورٹ کے معزز جج گلزار احمد نے کراچی رجسٹری میں سرکاری املاک اور اراضی پر بنائے گئے درجنوں شادی ہال، بڑے بڑے سکول اور عمارتیں گرانے کا حکم دے رکھا ہے تو ایسے میں حکومت یا پارلیمنٹ کا کوئی رکن عدلیہ کے ان احکامات کو بلیک لاء ڈکشنری کا نام دینا شروع کر دے تو اس پرکیا کہا جا سکتا ہے۔ میاں نواز شریف اور ان کی جماعت کے طاقتور لوگ قانون کے شکنجے میں آنے کے بعد سخت زبان استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں،تو دوسری جانب اگر قاضی وقت فیصلہ کرتے ہوئے یہ سوچنا شروع کر دے کہ وہ ایک انتہائی طاقتور شخص کے مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ جس کا جرم تو ثابت ہو چکا ہے لیکن اگر اس نے قانون کے مطا بق فیصلہ کیا تو یہ طاقتور ترین شخص جس کے ساتھ اقتدار کی طاقت اور اس کا بڑا قبیلہ بھی ہے اسے اوراس کے خاندان کو نقصان پہنچا ئے گا تو وہ کسی بھی مجرم، دہشت گرد اور ملک دشمن کو سزا نہیں دے سکے گا۔

موضوعات:



کالم



سٹوری آف لائف


یہ پیٹر کی کہانی ہے‘ مشرقی یورپ کے پیٹر کی کہانی۔…

ٹیسٹنگ گرائونڈ

چنگیز خان اس تکنیک کا موجد تھا‘ وہ اسے سلامی…

کرپٹوکرنسی

وہ امیر آدمی تھا بلکہ بہت ہی امیر آدمی تھا‘ اللہ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…