پیر‬‮ ، 23 دسمبر‬‮ 2024 

پولیس مقابلے کے وقت عدم موجودگی، رائو انوار کے جھوٹ کا پول کھل گیا،نقیب اللہ کو مارتے وقت کتنے اہلکار ساتھ تھے تحقیقاتی رپورٹ میںسب کچھ سامنے آگیا

datetime 27  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کراچی(این این آئی) نقیب اللہ قتل کیس میں پولیس کی جانب سے جمع کرائی گئی تحقیقاتی رپورٹ میں راؤ انوار کے دعوؤں کا بھانڈا پھوٹ گیا۔سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے 13 جنوری کے روز شاہ لطیف ٹاؤن پولیس مقابلے میں دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جس میں نقیب اللہ کو بھی دہشت گرد بتا کر ہلاک کیا گیا تھا تاہم معاملہ میڈیا پر آنے اور تحقیقات شروع ہونے پر راؤ انوار نے

مقابلے کے وقت جائے وقوعہ پر اپنی موجودگی سے انکار کردیا تھا۔معطل ایس ایس پی راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب اللہ کے پولیس مقابلے کے وقت وہ وہاں موجود نہیں تھے، یہ مقابلہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے کیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نقیب کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ نے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثناء اللہ کی سربراہی میں بننے والی تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جس میں راؤ انوار کے دعوے کو شواہد کی بنیاد پر جھوٹا ثابت کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق راؤ انوار اور ان کے دیگر انتہائی قریبی ساتھیوں کے موبائل فون نمبرز کے فورنزک اور کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) کیے گئے جس میں ثابت ہوا ہے کہ مقابلے میں شامل پولیس اہلکار و افسران ہر وقت راؤ انوار کے ساتھ پائے گئے۔رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ نقیب اللہ پولیس مقابلے کیوقت راؤ انوار سمیت 9 پولیس اہلکار موقعہ پر موجود تھے اور سی ڈی آر میں یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ پولیس مقابلے کے دورانیے میں راؤ انوار کے علاوہ 8 دست راست بھی ان کے ساتھ تھے۔رپورٹ کے مطابق موبائل فون فورنزک اور سی ڈی آر میں راؤ انوار کا ان افسران اور اہلکاروں سے لمحہ با لمحہ رابطہ ثابت ہوا اور یہ تمام افراد ہروقت ایک دوسرے کیساتھ پائے گئے۔رپورٹ کے مطابق فرانزک تجزیئے سے ثابت ہوا ہیکہ اے ایس آئی خیر محمد، سب انسپکٹر محمد انار اور گدا حسین،

راؤ انوار کے قریب ترین ساتھی ہیں جبکہ ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت اور ایس ایچ او سچل محمد شعیب بھی ان کے اعتماد والے افسران میں شامل ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ دو ہیڈ کانسٹیبل فیصل محمود، محسن عباس اور کانسٹیبل راجہ شمیم راؤ انوار کے انتہائی قریبی پائے گئے ہیں، یہ وہ افسران و اہلکار تھے جو کئی سالوں سے راؤ انوار کے دست راست ہیں اور ان کا آپس میں لمحہ بہ لمحہ رابطہ تھا۔

رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ نقیب اللہ کو تین جنوری کو حراست میں لیا گیا اور گرفتاری کے وقت نقیب اللہ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر تھا جبکہ اسے حراست میں لینے والے پولیس اہلکاروں کا سی ڈی آر بھی اسی علاقے سے ملا۔پولیس رپورٹ کے مطابق نقیب اللہ محسود کے فون فورنزک نے بھی پولیس مقابلہ جعلی ثابت کردیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ڈیٹا ریکارڈ سے نقیب کے زیرحراست

ہونے کی تصدیق ہوئی، نقیب اللہ کا موبائل فون 4 جنوری کو بند ہوا، اس کے زیر استعمال دو موبائل فون سے دہشت گردوں سے رابطوں کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔واضح رہے کہ راؤ انوار پولیس مقابلہ جعلی ثابت ہونے کے بعد سے روپوش ہیں جبکہ اس دوران انہوں نے اسلام آباد سے بیرون ملک فرار ہونے کی کوشش کی جو ایف آئی اے نے ناکام بنائی۔راؤ انوار کے بیرون ملک فرار ہونے کی خبر پر

چیف جسٹس پاکستان نے ان کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…