اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)نقیب اللہ محسود کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کے بعد معاملہ میڈیا پر آنے کے بعد تحقیقاتی کمیٹی بنا دی گئی ہے جس نے سپریم کورٹ میں اپنی 15صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا، پولیس اسے نجی عقوبت خانے میں قتل سے پہلے لے گئی تھی اور اس کے بعد شاہ لطیف ٹائون
میں دیگر تین افراد کے ہمراہ ایک بند پولٹری فارم میں لے جا کر یکطرفہ فائرنگ کر کے ہلاک کردیا تھا۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کئے گئے جعلی پولیس مقابلے کی تصدیق کے بعد نقیب اللہ محسود کے ساتھ پولیس نے اس کے جن دو دوستوں کو پکڑا تھا وہ بھی منظر عام پر آگئے ہیں اور انہوں نے نجی ٹی وی جیو نیوز کے ساتھ گفتگو میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نقیب اللہ کے ساتھ ایک ہوٹل میں بیٹھے تھے جب سادہ لباس پولیس اہلکاروں نے ان تینوں کو اٹھایا اور سچل تھانے کی حدود میں موجود پولیس چوکی میں لے گئے اور 50منٹ بعد آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ قاسم اور علی جو کہ نقیب اللہ محسود کے دوست تھے اس کے ساتھ رائو انوار کے نجی عقوبت خانے میں بھی رہے۔ علی نے بتایا کہ پولیس اہلکاروں نے ہوٹل سے پکڑنے کےبعد نقیب کو ہم سے الگ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا، ہم نقیب کی چیخوں کی آواز سنتے رہے۔ نقیب کے بعد پولیس والوں نے مجھے اور قاسم پر بھی تشدد کیا اور ہم پر کئی بار تشدد کیا گیا۔قاسم کا کہنا تھا کہ ہمارے موبائل پر نقیب کے میسج چیک کیے گئے ،نقیب کو ہم سے الگ کردیا گیا اور پھر ہمیں چھوڑ دیا گیا ۔ ہمیں چھوڑنے سے پہلے پولیس والوں نے ہمیں دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس واقعہ کا باہر کسی سے ذکر نہیں کرنا ورنہ تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔