بدھ‬‮ ، 05 فروری‬‮ 2025 

ابھی بھی وقت ہے جمہوریت کی بقاء کیلئے کندھا سے کندھا ملا کر چلیں،خواجہ آصف

datetime 18  مئی‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (آن لائن) وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاناما لیکس کے بعد احتساب کا مطالبہ کرنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دامن خود داغدار ہیں۔ آف شور کمپنی کسی بھی ملک کی ہو وہ اگرغلط ہے توغلط ہے، یہ کس قسم کی منطق پیش کی جارہی ہے کہ پاناما میں آف شور کمپنی ہو تو وہ غلط اور کسی اور ملک میں ہو تو وہ صحیح ہے، پاناما لیکس کے معاملے پرحکومت کو مارنے کے لئے پتھران لوگوں نے اٹھائے ہوئے ہیں جن کے دامن خود صاف نہیں،ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ جس کا دامن سب سے زیادہ داغدار ہو وہ سب سے زیادہ الزامات لگاتا ہے۔ بدھ کو ایوان زریں میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان وقت اور حالات کے ساتھ آف شور کمپنیوں کی تعریف بدلتے رہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ میری پاناما میں کوئی آف شور کمپنی نہیں لیکن وہ 1983 سے لے کر 2014 تک ٹیکس ریٹرن جمع کراتے رہے ہیں اور اس آف شور کمپنی کو الیکشن کمیشن کے ٹیکس ریٹرن میں نہیں بتایا گیا۔وزیردفاع نے کہا کہ شوکت خانم اچھا ادارہ ہے جو زکوآ و خیرات سے چلتا ہے، ہم اس ادارے کے نقصان پہنچانا نہیں چاہتے لیکن سب سے زیادہ نقصان اسے عمران خان نے خود پہنچایا ہے جنہوں نے بورڈ کے ممبر امتیاز حیدری کے ذریعے 7 ملین ڈالربیرون ملک انویسٹ کئے اور یہ صرف مسقط میں نہیں بلکہ فرانس میں بھی انویسٹ کئے گئے، چیرٹی کا پیسہ باہرلے جانا کہاں کا انصاف ہے، اگر وزیراعظم خود کو احتساب کے لئے پیش کرسکتے ہیں تو شوکت خانم ہسپتال کا پیسہ باہرلے جانے کا بھی احتساب ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سڈیزن فاؤنڈیشن اور ایدھی فاؤنڈیشن چلارہے ہیں انہیں سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں اور کسی تنازع کا شکار نہیں ہوئے، آپ شوکت خانم ہسپتال چلائیں اور کنٹینر پرکھڑے ہوکر گالیاں بھی دیں تو اس رویئے کی وجہ سے ادارہ تنازعات کا شکار ہوگا، شوکت خانم ہسپتال کو بنانے کے لئے مسلم لیگ (ن) نے بھی خدمات پیش کیں لیکن اس ہسپتال کو پناہ بنا کر اس کے پیچھے چھپنے کی کوشش سے اس ادارے کو نقصان پہنچے گا۔وزیردفاع نے عمران خان اور تحریک انصاف پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جیبیں خالی ہوتی ہیں لیکن ان کے ہاتھ دوسروں کی جیبوں میں ہوتے ہیں، اگر آپ 15 منٹ پہلے عمران خان کی جیب چیک کرتے تو ان کی جیبیں خالی تھیں، یہ لوگ اپنی جیبیں نہ کھولیں کم سے کم اپنے گریبان تو کھولیں، سوشل میڈیا کو ان لوگوں نے پلیت کردیا۔ خواجہ آصف کی اس بات پر تحریک انصاف کے اراکین نے احتجاج کی کوشش کی تو وزیردفاع نے کہا کہ کوئی بات نہیں اسپیکر صاحب انہیں بولنے دیں، بچے ہیں ان کے بولنے سے کچھ نہیں ہوتا جس کے بعد اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سچ یاد نہیں رکھنا پڑتا، جھوٹ کو یاد رکھنا پڑتا ہے، جمائمہ خان کی عمران خان کے نام پاورآف اٹارنی بھی زیربحث آئے گی۔وزیردفاع نے کہا کہ سیاستدان ایک دوسرے کے کپڑے تارتارکررہے ہیں، احتساب کریں بلکہ میاں صاحب سے احتساب کاعمل شروع کریں، خورشید شاہ اورمیری پارٹی نے ایک دوسرے پرمقدمات بھی بنائے، ہم نے ایک دوسرے کو قید بھی کیا پرلحاظ اور شرم نہ چھوڑی، اگرسیاسی روایت اچھی رہی تو جمہوریت برقراررہے گی، ہوسکتا ہے کہ ہمیں کسی ایشو پراکٹھا ہونا پڑے اور مل کرچلنا پڑے اس لئے اتنے فاصلے نہ بڑھائیں، پاناما پیپرزپراپوزیشن نے جو کہا نوازشریف نے تسلیم کرلیا، مشترکہ ٹی اوآرکی بات بھی مان لی گئی ہے، اتنے فاصلے نہ بڑھائیں جو لوگوں کے لئے نقصان دہ ہوں۔ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پانامہ لیکس پر احتساب کا مطالبہ کرنے والوں کا اپنا دامن صاف نہیں ہے آف شور کمپنی پانامہ کی ہو یا برٹش ورجن آئزلینڈ کی آف شوری ہی ہوتی ہے شوکت خانم کو نقصان حکومت نہیں بلکہ عمران خان خود پہنچا رہے ہیں وزیر اعظم نواز شریف نے خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیا ہے ابھی بھی وقت ہے کہ جمہوریت بقا کے لئے کندھا سے کندھا ملا کر چلے ۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی بات تحمل کیساتھ سنی ہے عمران خا ن نے ٹھیک کہا کہ پارلیمنٹ مقتدر ادارہ ہے پارلیمنٹ 200 ملین لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے تمام مسائل کا حل پارلیمنٹ میں ہی ہے ماضی میں بھی اگر ادارہ کمزور ہوا توا س کی ذمہ داری قبول کرنی چاہئے انہوں نے کہا کہ الزامات در الزامات کی بجائے پانامہ لیکس پر شروع ہوئی اتفاق رائے کرنے کی ضرورت تھی اب بھی موقع ہے کہ اس معاملہ کو ہاتھ میں لیا جائے تاکہ اس کے وقار میں اضافہ کیا جائے انہوں نے کہا کہ احتساب مانگنے والے لوگوں کا اپنا دامن صاف ہونا چاہئے پانامہ لیکس پر احتساب کا مطالبہ کرنے والوں کے دامن صاف نہیں ہیں وزیر اعظم نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا ہے آف شور کمپنی پانامہ کی ہو یا دیگر ہو آف شور ہی رہتی ہے آف شور اگر پانامہ میں آ جائے تو بری اور اگر دیگر میں آ جائے تو صاف ہوتی ہے خواجہ آصف نے کہاکہ شوکت خانم ایک اچھا ادارہ ہے جو زکواۃ پر چلتا ہے ہم نے شوکت خانم کو نقصان نہیں پہنچایا سب سے زیادہ نقصان عمران خان نے خود پہنچایا ہے 9 سال قبل سپریم کورٹ نے فیصلہ کیا کہ انڈوسمنٹ فنڈ پر پابندی عائد کر دی ۔شوکت خانم کا پیسہ مسقط میں ہی نہیں بلکہ فرانس میں خرچ ہوا ہے ایک بورڈ ممبر کے ذریعے پیسہ باہر بھجوایا گیا مسقط میں خریدی گئی زمین کی انکوائری کروانے کی ضرورت ہے وزیر اعظم اگر خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہیں تو زکواۃ خیرات کا پیسہ بھی ایمانداری میں پیش ہونا چاہئے شوکت خانم کو متنازعہ خواجہ آصف نے نہیں کیا بورڈ کے ممبرز نے اس کی مخالفت کی تھی عبدالستار ایدھی بھی ایک خیراتی ادارہ چلا رہے ہیں ان کو شہریت کی کوئی ضروری ہے شوکت خانم کی کامیابی سے چلنا ہمارے لئے بہت ضروری ہے عمران خان کے ذرائع آمدن کا کسی کو پتہ نہیں ہے خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان مدینے کی ریاست کی بات کرتے ہیں ان کے پاس کے پی کے میں حکومت ہے وہاں کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں عمران خان کو آف شو کمپنی کی تعریف کا پتہ نہیں ہے حالات کے حساب سے آف شور کمپنی کی بات کرتے ہیں عمران خان کی کمپنیوں کے نام بی آف شو کمپنیوں میں کرتے ہیں انہوں نے آف شو کمپنیوں کو 2013-14 میں ڈکلیئر نہیں کیا ان کے تمام ذرائع آمدن کا پتہ لگوائیں گے ۔ کہ کیسے فلیٹ کو خریدا انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے عمران خان فاؤنڈیشن کے نام پر تین ارب روپے اکٹھا کیا اور لوگوں کو گھر بنا کر دینے کا وعدہ کیا تھا اس کا کوئی پتہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ 20 سے 25 سال میں ٹیکس دیا ہے 90 ء کی دہائی اور 99 میں حکومت کو زبردستی فارغ کئے جانے کے باوجود عوام وزیر اعظم کے ساتھ ہے عوام نے نواز شریف کو تیسری بار وزیر اعظم بنایا اس سے بڑھ کر اخلاقی جواز کیا ہو سکتا ہے ہمیں ان لوگوں کی ٹینشن نہیں ہے کیونکہ عوام ہمارے ساتھ ہے ۔ ان کو خطرہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت 2018 تک چلی گئی تو یہ سیاست سے فارغ ہو جائیں گے ۔ عوام نے عمران خان کو 2011-12 میں عزت اور مقام دیا تھا مگر انہوں نے گالیاں دے کر وہ بھی گنوا دیا ہے ۔ سیاستدان ایک دوسرے کے کپڑے تار تار کر رہے ہیں ، خورشید شاہ نے ٹھیک کہا کہ اپنے معاملات ایوان کے اندر حل کریں وزیر اعظم نو از شریف ایک ایک پائی کا حساب دیں گے حالات کو ایسے نہج پر نہ پہنچائیں کہ ایک دوسرے سے بات نہ کر سکیں ۔ ہو سکتا ہے مستقبل میں کچھ معاملات پر ایک دوسرے کے کندھا سے کندھا ملا کر چلنے کی ضرورت پیش آئے ۔سیاسی روایات مضبوط ہوں گی تو جمہوریت مضبوط ہو گی گزشتہ پانچ سال میں احتساب پر قانون بنانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئیں ابھی وقت ہے کہ احتساب کے لئے یہ ایوان قانون سازی کریں ۔ جمہوریت ابھی تناور درخت نہیں ہے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک حکومت سے دوسری حکومت کو اقتدار منتقل ہوا ہے ہمیں جمہوریت کے لئے اکھٹے ہو کر چلنا چاہئے ۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



رانگ ٹرن


رانگ ٹرن کی پہلی فلم 2003ء میں آئی اور اس نے پوری…

تیسرے درویش کا قصہ

تیسرا درویش سیدھا ہوا‘ کھنگار کر گلا صاف کیا…

دجال آ چکا ہے

نیولی چیمبرلین (Neville Chamberlain) سرونسٹن چرچل سے قبل…

ایک ہی راستہ بچا ہے

جنرل احسان الحق 2003ء میں ڈی جی آئی ایس آئی تھے‘…

دوسرے درویش کا قصہ

دوسرا درویش سیدھا ہوا‘ کمرے میں موجود لوگوں…

اسی طرح

بھارت میں من موہن سنگھ کو حادثاتی وزیراعظم کہا…

ریکوڈک میں ایک دن

بلوچی زبان میں ریک ریتلی مٹی کو کہتے ہیں اور ڈک…

خود کو کبھی سیلف میڈنہ کہیں

’’اس کی وجہ تکبر ہے‘ ہر کام یاب انسان اپنی کام…

20 جنوری کے بعد

کل صاحب کے ساتھ طویل عرصے بعد ملاقات ہوئی‘ صاحب…

افغانستان کے حالات

آپ اگر ہزار سال پیچھے چلے جائیں تو سنٹرل ایشیا…

پہلے درویش کا قصہ

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…