کراچی(نیوزڈیسک) نجی میڈیکل یونیورسٹی میں امتحان سے روکنے پر جل کر ہلاک ہونے والے طالب علم عبدالباسط کا کیس پیچیدہ ہو گیا ہے ۔ پولیس نے نارتھ ناظم آباد میں واقع نجی میڈیکل یونیورسٹی کے طالب علم عبدالباسط کی خود سوزی کے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں ۔ عبدالباسط کے اہلخانہ نے الزام عائد کیا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے عبدالباسط کو جلایا جس میں کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی ملوث ہے۔ طالب علم کی والدہ نے انکشاف کیا ہے کہ میرے بیٹے نے خود سوزی نہیں کی ہے بلکہ اسے جلایا گیا ہے ۔ انصاف فراہم کیا جائے ۔پروفیسر ڈاکٹرابرارکے مطابقٍ عبدالباسط پیپر ختم ہونے کے 30 منٹ بعد پہنچا تھا ۔ میڈیا پر 10 منٹ سے تاخیر پر آنے کی خبریں غلط ہیں۔گورنرسندھ نے نوٹس لیتے ہوئے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق نجی میڈیکل یونیورسٹی میں امتحان سے روکنے پر جل کر ہلاک ہونے والے طالب علم عبدالباسط کا کیس پیچیدہ ہو گیا ہے۔ پولیس نے نارتھ ناظم آباد میں واقع نجی یونیورسٹی میں جائے وقوعہ کا معائنہ بھی کیا ہے تاہم اب تک مقدمہ درج نہیں کیا اور واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش کی جارہی ہے۔ عبدالباسط کے والد کا کہنا ہے کہ انہیں نامعلوم نمبر سے فون آیا کہ وہ فوری عباسی شہید اسپتال پہنچ جائیں جہاں وہ گئے تو ان کا بیٹا عبدالباسط جھلسا ہوا تھا جس کے بعد اسے سول اسپتال کے برن وارڈ منتقل کیا گیا جہاں وہ دوران علاج چل بسا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ بیٹے کی موت کے ذمہ دار پرنسپل اور پروفیسر ہیں اور عبدالباسط نے خودسوزی نہیں کی بلکہ اسے زندہ جلایا گیا ہے۔ عبدالباسط کی والدہ کا کہنا ہے کہ میں اپنے بیٹے کے ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی تھی ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ یونیورسٹی میں موجود اساتذہ بچے کی موت کے ذمہ دار ہیں ۔ بچوں کو پاس کرنے کے عوض لاکھوں روپے رشوت مانگی جاتی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے بیٹے کا کسی سے کوئی لڑائی جھگڑا نہیں تھا اور نہ ہی میرے بیٹے کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق تھا ۔والدہ کے مطابق یونیورسٹی میں کام کرنے والے سارے ڈاکٹر ایک جیسے نہیں لیکن ڈاکٹر ندیم کھوکھر بچوں کو پاس کرنے کے لئے لاکھوں روپوں کا مطالبہ کرتے ہیں، ڈاکٹرفرحت، ڈاکٹر ندیم کھوکھر،ڈاکٹرابرار اور ڈاکٹرفرقان میرے بیٹے کی موت کے ذمہ دارہیں اورانہی لوگوں نے اسے مارا ہے جب کہ کیمپس کا سیکیورٹی گارڈ بھی آگ لگانے میں ملوث ہے۔ انہوں نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے درخواست کی ہے کہ وہ میرے بیٹے کے ساتھ انصاف کریں ۔ عبدالباسط کے دوست کا کہنا ہے کہ وہ صرف 10 منٹ تاخیر سے امتحانی مرکز پہنچا تھا ۔ وہ خود کشی نہیں کر سکتا تھا ۔ اسے اکسایا گیا ہے ۔ عبدالباسط کے بھائی کے مطابق اسے ماڈلنگ کا شوق تھا ۔ جلد رشتہ طے ہونے والا تھا ۔ وہ یونیورسٹی اساتذہ کی جانب سے پریشر کے بارے میں اکثر ذکر کیا کرتا تھا ۔بھائی نے بتایا کہ عبدالباسط گھر میں سب سے چھوٹا اور لاڈلہ تھا اور اگلے سال اسے آسٹریلیا بھی جانا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ وہ فیملی کے ساتھ اکثر اپنی سیلفی لیتا رہتا تھا ۔ عبدالباسط کے بھائی نے اعلی حکام سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خودسوزی نہیں قتل ہے، بھائی سے یونیورسٹی ملازم ندیم نے امتحان میں بٹھانے کے بدلے رشوت مانگی تھی اگر اس کے بھائی نے خود کو آگ لگائی تھی تو کسی نے اسے بچایا کیوں نہیں۔عبدالباسط کی خود کشی کے ذمہ دار قرار پانے والے پروفیسر ڈاکٹر ابرار کا موقف بھی سامنے آگیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ عبدالباسط پیپر ختم ہونے کے 30 منٹ بعد پہنچا تھا ۔ میڈیا پر 10 منٹ سے تاخیر پر آنے کی خبریں غلط ہیں ۔ 30 منٹ تاخیر سے آنیوالی ایک طالبہ نازش کو پیپر دینے کی اجازت دی گئی ۔ پیپر کا وقت صبح 11 بجے سے 1 بجے تک تھا ۔ عبدالباسط پیپر ختم ہونے کے 30 منٹ بعد پہنچاتھا ۔ انہوں نے کہا کہ عبدالباسط 2007 سے بی ڈی ایس طالب علم تھا اور مسلسل 7 سال سے فیل ہو رہا تھا ۔ادھرنجی یونیورسٹی نارتھ ناظم آباد کو عام لوگوں کے لیے بند کر دیا گیا ہے جبکہ پولیس نے نجی یونیورسٹی میں جائے وقوعہ معائنہ بھی کیا ہے ۔ دوسری جانب گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے ڈینٹل کالج کے پرنسپل سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے ۔ عبدالباسط کی خود سوزی کے حوالے سے ڈی آئی جی ویسٹ نے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے ۔ تحقیقاتی کمیٹی میں ڈی ایس پی شادمان ، ایس ایچ او تیموریہ اور ایس آئی او تیموریہ پر مشتمل ہے ۔ تحقیقاتی کمیٹی چند روز میں تحقیقات مکمل کرکے ڈی آئی جی ویسٹ کو رپورٹ دے گی ۔واضح رہے کہ عبدالباسط بی ڈی ایس کے فائنل ایئر کا طالب علم تھا ۔ گذشتہ روز امتحان میں تاخیر سے پہنچنے پر یونیورسٹی انتظامیہ نے امتحان میں بیٹھنے سے روک دیا تھا ، جس پر دلبرداشتہ ہو کر پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگا لی تھی ۔