اسلام آباد(نیوزڈیسک)قومی اسمبلی قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے جوڈیشل کمیشن بنانے کی تجویز مسترد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ پانامہ پیپرز کے الزامات کے حوالے سے انٹرنیشنل آڈٹ کمپنی سے وزیراعظم کے بچوں کے مالی معاملات کا آڈٹ کروایا جائے ¾وزیراعظم کے بیٹے بیرون ملک بزنس کریں تو ہم دوسروں کو کیسے سرمایہ کاری کی دعوت دے سکتے ہیں ؟ قومی اسمبلی کااجلاس جمعرات کو مقررہ وقت سے 45منٹ تاخیر سے شروع ہوا جس کی صدارت سپیکر سردار ایاز صادق نے کی ۔تلاوت قرآن پاک کے بعد لاہور میں گلشن اقبال دھماکہ اور خیبر پختون خوا و گلگت بلتستان میں جاں بحق ہونے والوں کی روح کے ایصال ثواب کےلئے فاتحہ خوانی کی گئی وزیرمملکت پیر امین الحسنات شاہ نے دعا کروائی اجلاس میں تحریک انصاف کے عمران خان نے بھی شرکت کی تحریک انصاف کے ارکان نے تلاوت قر آن پاک کے دور ان عمران کی قیادت میں ایوان میں اکٹھے آئے ۔بعد ازاں نکتہ اعتراض پر قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے اپوزیشن کی تحریک التواءپر بحث کرائی جائے انہوں نے کہا کہ میڈیا کے ٹاک شوز اور گلی کوچوں میں بات ہونے کی بجائے پارلیمنٹ کے فورم پر بات ہونی چاہئے ¾ہمیں طریقہ کار طے کرلینا چاہئے تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس حوالے سے ہماری تحریک التواءبھی جمع ہو چکی ہے ¾ ہم نے قواعد کے تحت ہی تحریک التواءجمع کرائی ہے، طریقہ کار واضح ہے۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اﷲ نے کہا کہ اگر معاملے کی اتنی اہمیت نہ ہوتی تو وزیراعظم معاملے پر کمیشن بنانے کا اعلان نہ کرتے جس سپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ توازن برقرار رکھنے کے لئے دونوں اطراف سے ارکان کو بات کرنے کا موقع دیا جائےگا ¾ قاعدہ 259 کے تحت بحث خلاف قواعد ہوگی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ بحث قواعد کے مطابق ہونی چاہئے، حکومت کو تحریک التواءپر اعتراض نہیں ہے۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ قواعد کے تحت جب کوئی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو اور تحقیقات کے مرحلے پر ہو تو اس پر ایک حد کے اندر رہتے ہوئے ہی بات کی جاسکتی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ سپیکر بحث کے حوالے سے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کریں، یہاں پر بحث کھل کر کرائی جائے۔ ہم اس کو خوش آمدید کہیں گے۔ اگر میڈیا میں بحث جاری ہے تو یہاں بھی ہونی چاہئے ¾ پیپلز پارٹی کے سید نوید قمر نے کہا کہ اگر حکومت کو اعتراض نہیں تو تحریک التواءکو قاعدہ 259 میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت نے اعتراض نہیں کیا تو سپیکر کو بھی اعتراض نہیں کرنا چاہئے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کر کے بحث شروع کرائی جائے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ عام بحث کی اجازت ہونی چاہئے ¾وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ پاناما پیپرز کے حوالے سے قاعدہ 259 کے تحت بحث کرائی جائے جس کے بعد بحث کا آغاز کر دیا گیا۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ پانامہ پیپرز ایسا معاملہ نہیں جس پر ملک کے اندر سے الزام لگایا گیا ہو ¾یہ عالمی سطح کا معاملہ ہے جس میں وزیراعظم کے بچوں کے نام آئے ہیں ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ ملک میں ایمنسٹی سکیم اس لئے دی تھی کہ لوگ ٹیکس جمع کروائیں مگر وزیراعظم کا بیٹا کہتا ہے کہ ہم نے ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنیاں بنائیں ۔ انہوں نے کہا کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں اگر وزیراعظم کا اپنا بیٹا ملک میں بزنس لانے کی بجائے بیرون ملک بزنس کریں تو ہم دوسروں کو کیسے پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دے سکتے ہیں ؟ وزیراعظم کو پریس کانفرنس کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟اس نے بہت سے سوالات پیدا کر دیئے ہیں وزیراعظم نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کے والد کی صنعت سرکاری تحویل میں لے لی ¾ اس پر صرف ان کی نہیں بہت سی صنعتیں قومی تحویل میں لی گئی ہیں اس وقت شریف فیملی سیاست میں نہیں تھی پھر انہیں سیاسی انتظام کا نشانہ بنانے کا کوئی سول ہی پیدا نہیں ہوتا ؟وزیراعظم نے اپنی تقریر میں ایشوز پر ایشوز کھڑے کئے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے شریف فیملی کو باہر بھیجا جس پر عدالتوں نے بھی احتجاج کیا اس پر اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے ۔ خورشید شاہ نے کہا کہ نواز شریف ملک سے کتنی رقم لے کر گئے تھے کیا وہ رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے گئی پھر جو فیکٹری سعودی عرب میں لگائی گئی کیا اس چھوٹی سے فیکٹری کا اتنا منافع تھا کہ اس سے اتنی قیمتی جائیدادیں خریدی گئیں ۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کے ججز ورجینیا یا لندن تو نہیں جائیں گے اس کیلئے تو فرانزک آڈٹ کی کمپنیوں کو ذمہ داری دی جائے جو تمام معاملات کی جانچ پڑتال کریں قانون سے زیادہ اخلاقیات زیادہ طاقتور ہوتی ہیں ملک کا وزیراعظم تو سب کیلئے برابر ہوتا ہے جھونپڑی والے سے کر محل والے تک کے حقوق کا تحفظ وزیراعظم کی ذمہ داری ہوتی ہے انہوں نے مطالبہ کیا کہ انٹرنیشنل آڈیٹر کمپنی سے وزیراعظم کے بچوں کی جائیداد اور رقوم کا آڈٹ کروایا جائے ¾ ہم وزیراعظم سے استعفے کامطالبہ نہیں کرتے ہم اتنی جلدی سسٹم کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہئے ¾کسی اندرونی آڈٹ کمپنی کی رپورٹ کو ہم تسلیم نہیں کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ تین ماہ تو کیا تین سال کے اندر بھی جوڈیشل کمیشن میں کوئی ثبوت نہیں آئیں گے جب تک انٹرنیشنل آڈٹ کمپنی کی آڈٹ رپورٹ نہیں آتی ¾ اپوزیشن جوڈیشل کمیشن کو مسترد کرتی ہے ہم اس کو نہیں مانتے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم تو ملک کی ہر چیز کا رکھوالا ہوتا ہے پارک لینڈ کے گھر کے حوالے سے صدیق الفاروق نے کہا تھا کہ 1993 ءمیں میری نواز شریف سے اس گھر میں ملاقات ہوئی تھی اور وہاں رات بھی رہا اور وزیراعظم کہہ رہے ہیں کہ وہ گھر 2006 کے بعد ملا۔