اسلام آباد(نیوزڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 میں دھاندلی کے مقدمے کی سماعت کل منگل تک ملتوی کرتے ہوئے درخواست گزار صدیق خان بلوچ کو ذاتی طور پر کہا ہے کہ الیکشن ٹریبونل کی طرح سے بنچ کے معزز ججز صاحبان ان سے کچھ بھی پوچھ سکتے ہیں،زلزلے کی وجہ سے صدیق خان وقتی طور پر نااہلی سے بچ گئے ۔ تین رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہم پہلے جعلی ڈگری کے تحت درخواست گزار کی نااہلی کا معاملہ دیکھیں گے اور اگر وہ اس میں نااہل ثابت ہو جاتے ہیں تو پھر انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی ۔ ہم چاہتے ہیں کہ جو عوامی نمائندہ وہ کھل کر سامنے آ جائے آپ کے موکل نے تو کمال کر دیا پہلی جماعت سے بی اے تک تمام جماعتیں پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کر لیں ۔ ٹریبونل نے آپ کے موکل سے آسان سوال پوچھا اس کا بھی آپ کو جواب نہ آیا یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں جعلی ڈگری جو ہو بہو اصل ہوتی ہے کئی لوگ بغیر پڑھے اسناد حاصل کر لیتے ہیں اگر گواہ آپ کے حوالے سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کے داخلہ فارم تک نہیں مل رہے تو آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ آپ نے میٹرک ، ایف اے اور بی اے کیا ہے انہوں نے یہ ریمارکس پیر کے روز دیئے ہیں ۔درخواست گزار صدیق خان بلوچ کے وکیل شہزاد ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ 20 ہزار ووٹ غیر تصدیق شدہ تھے جن ووٹوں کی تصدیق نہ کی گئی ان کے حوالے سے تفصیلات بھی عدالت میں موجود ہیں غلطی کے حوالے سے بات پولنگ سٹاف نے سارے حلقے سے کی ۔ شناختی کارڈ دیکھ کر ہی بیلٹ پیپرز جاری کئے جاتے ہیں ۔ الیکٹورل رول پر ووٹر کے انگوٹھے کے نشان ثبت کرنے کی قانونی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ سیریل نمبرز الیکٹورل رول کے دوران جمع کئے جاتے ہیں ۔ شناختی کارڈ نمبر رجسٹر ہونا الیکٹورل رول پر تصویر کا ہونا اور شناختی کارڈ نمبر ہونا ضروری ہوتا ہے یہاں ایسا کیوں نہیں کیا گیا ۔ ووٹر نمبر موجود ہے ۔ انگوٹھے کا نشان بھی ہے مگر شناختی کارڈ نمبر نہیں ہے نادرا نے اس حوالے سے کوئی پراسیس تک نہیں کیا آخر یہ انگوٹھا کسی نہ کسی کا تو ہے۔ جسٹس گلزار ن