اسلام آباد(نیوز ڈیسک) گرفتاربھارتی جاسوس اور قلات کے رہائشی دیپک کمار پر کاش نے انکشاف کیا کہ میں بھارت کیلئے کام کرتا تھا اور 2014 میں یا ترا کیلئے نئی دہلی گیا جہاں ویزا آفس میںدو بھارتی فوجی افسر ملے اور کہاکہ بھارت کیلئے جاسوسی کرو اس کے بدلے میں ویزے میں توسیع کرادیں گے۔ اسے پچاس ہزار روپے اور بھارت میں مقیم اسکے بھائی کو ساڑھے چار لاکھ روپے دیئے گئے۔مقامی چینل دنیا نیوز کے مطابق بلوچستان سے تعلق رکھنے واے اس نوجوان کی کہانی سے واضح ہو جائے گا کہ ”را“ پاکستانی نوجوانوں کو کیسے بھرتی کرتی ہے۔ دیپک کمار نے بتایا کہ میرا بڑا بھائی راجیش کمار بھارت میں ہے۔ اس کی عمر تقریباً 32,30 سال ہے۔ نئی دہلی میں اس کی گارمنٹس کی دکان ہے، وہ پاکستانی ہے، حالات خراب ہوگئے تھے اور ساٹھ ہزار سے زائد لوگ نقل مکانی کر گئے۔ میرا بھائی بھی ویزالے کر گیا، اس نے مجھے بھارت بلا لیا ، میں نے کوئٹہ سے ویزا لیااس میں دواڑ ھائی ماہ لگے تھے۔ بھارت میں میرا ویزا ختم ہونے میں چار دن باقی تھے اور میں اس کے لئے پریشان تھا۔ بھاتی ویزا نہیں دے رہے تھے۔ یہ دفتر نئی دہلی چاندنی چوک میں تھا ادھر دو افراد بیٹھے تھے ایک کا نام گوردیپ سنگھ اور دوسرے کا نام راجکمارتھا، دونوں سکھ تھے، گوردیپ کی عمر 40 سال اورراجکمار نوجوان لڑکا تھا۔ انہوں نے مجھے بلایا اور پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ ویزا چاہیے، میں قلات سے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تمہیں ویزا دیں گے بشرطیکہ ہمارے لیے کام کرو۔ میں نے تفصیل پوچھی تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جاسوسی کرو انہوںنے کہا کہ فوج کے سینئر افسروں اور سیاسی جماعتوںسے رابطہ رکھو، بلوچستان میں پی ایل اے پر تھی نظر رکھو، اس طرح پہلے دن ویزے کے چکر میں یہ ملاقات ہو گئی۔ مجھے ایک ماہ کی توسیع مل گئی ، وہ ایک ہفتے تک مجھے اپنے دفتر میں بلاتے رہے اور کام کی تفصیل بتائی۔ بعد ازاں مجھے 50 ہزارروپے بھی دئیے اور میرے بھائی کو بھی ساڑھے چار لاکھ مل گئے۔ دسمبر 2014 میں واپس قلات آگیا۔ قلات کے شاہی بازار میں واقع اپنی دکان پر ہر اتوار کو چار پانچ بجے سہ پہر کو فون آتا تھا جو ایک ایسے نمبر سے آتا تھا جس کا کوئی کالر آئی ڈی نہیں تھا، کئی ماہ تک بھارتی فوجی افسر گوردیپ سنگھ سے رابطے میں رہا اور اسے رپورٹیں دیتا رہا، فون پر گوردیپ سنگھ ہندی اردو میں بات کر تا تھا ، یہ سلسلہ چلتا رہا پھر مجھے انہوں نے کہ اکہ ہفتہ کو کراچی جائیں، لیکن میں کراچی نہ جاسکا۔اس کے بعد ایک کال آئی میں نے کہا کچھ دن کے بعد جاﺅں گا۔ اس کے بعد میں نے اپنے نمبر پر کوڈ لگا کر بند کر دیا، یہ دواڑھائی ماہ پہلے گرمیوں کی بات ہے۔ اس کے بعد میں پکڑا گیا، میں ایک غلطی کر چکا تھا، میں نے سوچا یہ میرے ملک کے خلاف ہو رہا ہے۔ میں نے سب کچھ لالچ کی وجہ سے کیا۔میزبان نے بتایا کہ آپ نے دیکھا ”را“ نے دیپک کمار کے ذریعے اندرون بلوچستان جاسوسی کا جال کیسے بچھایا ؟ یہ صرف ایک بلوچ نوجوان کی کہانی ے لیکن اس وجہ سے پاکستان کی اقلیتوں پر شک نہ کیا جائے ہمیں”را“ اور دیگر ایجنسیوں کے طریقہ واردات پر غور کرنا چاہیے۔