اسلام آباد(این این آئی)اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں بڑھتے جرائم، کچہری کی حالت زار اور پراسیکیوشن برانچ کے قیام کے کیسسز میں وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبرطلب کرلیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے
وفاقی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہ ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، یہ عدالت حکومت سے توقع کر رہی تھی، اس عدالت کو رپورٹس سے کوئی غرض نہیں۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ وفاقی حکومت میں دہائیوں سے پراسیکیوشن برانچ نہیں ، وفاقی دارالحکومت کو تو ماڈل ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے آئین کا مسودہ دکھاتے ہوئے استفسار کیا کہ ڈپٹی اٹارنی جنرل صاحب بتائیں یہ آئین کب آیا تھا ؟ جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ آئین 1973 میں آیا تھا، عدالت نے کہا کہ اس آئین میں لکھا ہے جلد اور فوری انصاف ہر شہری کو فراہم کیا جائے گا، عدالتیں دیکھ لیں آپ نے کس حال میں بنا رکھی ہیں اور شہریوں کو وہاں کتنے مسائل ہیں، انصاف کی فراہمی میں تمام رکاوٹیں ریاست کی طرف سے ہوتی ہیں اور الزام عدالتوں پر آتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو رپورٹس جمع کرواتے ہیں ان سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں عملاً بتائیں کیا کیا، دس دن کا وقت ہے ہمیں کوئی عملی حل بتائیں ورنہ اعلیٰ ترین عہدیدار کو طلب کریں گے۔عدالت نے مشیر داخلہ شہزاد اکبر کو آئندہ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 24 دسمبر تک ملتوی کردی