اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ نے ائیرمارشل ارشد ملک کو بطور سی ای او پی آئی اے کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں قومی ائیرلائن کے چیف ایگزیکٹو ارشد ملک کی تعیناتی پر سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی جس سلسلے میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔
سندھ ہائیکورٹ نے ارشد ملک کو چیئرمین پی آئی اے کے طور پر کام کرنے سے روکنے کا حکم دیا تھا جس پر ایک بار پھر اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے ارشد ملک کو کام جاری رکھنے کی اجازت دینے کی استدعا کی۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ 9 سالوں میں پی آئی اے کے 12 سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں، ائیر مارشل ارشد ملک اچھے اور قابل انسان ہیں۔اٹارنی جنرل کے دلائل پر چیف جسٹس پاکستان نے ان سے مکالمہ کیا کہ پی آئی اے کے بارے میں کوئی ایک چیز بتائیں جو اچھی ہو، پی آئی اے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے کیا اس کو بند کردیں؟جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کراچی ائیرپورٹ پر خستہ اور خراب حالات میں جہاز کھڑے ہوئے ہیں، اگر خدا نخواستہ حادثہ ہو گیا تو لوگوں کا کیا ہوگا، ائیر پورٹ کی طرف گند نظر آتا ہے، ہر خراب چیز ائیرپورٹ پر نظر آتی ہے، پی آئی اے، اے ایس ایف اور کسٹم والے لوگوں کو سہولیات دینے میں ناکام ہو چکے ہیں، پی آئی اے میں کوئی پروفیشنلزم نظر نہیں آتا۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ہمیں ادارے کا مستقل 3 سال کے لیے سربراہ چاہیے جو ادارے کو بہتر کر سکے، اس ادارے میں ایک حکومت اپنے بندے بھرتی کرتی ہے اور دوسری آکر نکال دیتی ہے۔
نکالے جانے والے بعد میں ترقی اور رقوم کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کو پھر تیسری حکومت لاکھوں روپے دے دیتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم بھی ایک ادارہ ہیں، لوگوں کے مسائل حل کرنا ہمارا کام ہے، پی آئی اے کو کس طرح چلانا ہے ہمیں پتہ ہے، قومی ائیرلائن کے علاوہ بھی کمپنیاں اچھا کام کررہی ہیں، کوئی بھی ادارہ یونین کو دیں گے تو بند ہی ہوجائے گا، پھر کون ذمہ دار ہوگا۔دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ یہ کورونا وائرس بیرون ملک سے بذریعہ ائیرپورٹ آیا، یہ پی آئی اے اور حکومت کی نااہلی سے ہوا، اس وقت ہر جگہ ملک میں کرونا کی بات ہو رہی ہے، اگر سیکیورٹی کا یہ حال رہا تو کون سی بیماریاں ملک میں آجائیں گی۔بعد ازاں عدالت نے اٹارنی جنرل نے استدعا کے بعد چیف ائیرمارشل ارشد ملک کو کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔