کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2018 میں شراب اور منشیات استعمال کرنے والے امیدواروں کو انتخابی عمل سے روکنے سے انکار کر دیا ہے ۔ کراچی کے ایک شہری نثار احمد شیخ نے ایک مکتوب کے ذریعے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا سے درخواست کی تھی الکحل اور منشیات کے استعمال کا پتا لگانے کے لیے تمام امیدواران کے لیے خون اور پیشاب کے لیبارٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیے جائیں ۔
جن امیدواران کے یہ ٹیسٹ مثبت آئیں انہیں عام انتخابات کے لیے نااہل قرار دیا جائے ۔ نثار احمد شیخ نے اپنے مکتوب میں واضح کیا تھا کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت شراب اور دیگر منشیات کو استعمال کرتی ہے۔ اس مکتوب کا الیکشن کمیشن نے تقریبا ایک ماہ کے بعد معذرت کی صورت میں جواب دیا ہے ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر(الیکشن ) عاطف رحیم نے الیکشن کمیشن کی جانب سے بھیجے گئے جواب میں کہا ہے کہ منشیات اور الکحل کے لیے کسی ٹیسٹ کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے ۔ چونکہ الیکشن کمیشن قانون سازی نہیں کرسکتا اس لیے اس ٹیسٹ کے لیے مناسب فورم سے رجوع کیا جائے ۔ درخواست گزار نثار احمد شیخ نے ڈپٹی ڈائریکٹر (الیکشن) عاطف رحیم کے جواب میں واضح کیا ہے کہ اس کے لیے کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کے لیے پہلے سے ہی آئین میں حکم موجود ہے ۔ آئین کے آرٹیکل 62 کی کلازC کے مطابق رکن پارلیمنٹ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھے کردار کا مالک ہو اور اس کی شہرت ایسی نہ ہو کہ وہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کرتا ہو۔ اسی آرٹیکل 62 کی کلاز D کے مطابق رکن پارلیمنٹ کے کو اسلامی تعلیمات کی موزوں و مناسب معلومات رکھتا ہو اور گناہ کبیرہ سے اجتناب کرتا ہو۔
نثار احمد شیخ نے کہا ہے کہ شراب پینا اورمنشیات کا استعمال آئین کے آرٹیکل 62 کے خلاف ہے اس لیے شراب اور منشیات کے استعمال کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے ۔ نثار احمد شیخ نے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار سے بھی اس معاملے پر ازخود نوٹس لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قانون سازی کس طرح شرابی ، زانی اور منشیات استعمال کرنے والوں کے حوالے کی جاسکتی ہے ۔ انہوں نے اس سلسلے میں صدر پاکستان ممنون حسین سے بھی مداخلت کی اپیل کے لیے انہیں مکتوب بھیجا ہے ۔