لاہور ( این این آئی) مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد و سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ میرے بنیادی حقوق بری سلب کیے جارہے ہیں اور اپنے حق دفاع سے محروم کیا جا رہا ہوں ،ایسا ماحول بنایا جارہا ہے کہ میں وکیل کی خدمات سے بھی محروم ہوگیا ہوں،احتساب عدالت نے نیا وکیل کرنے کا کہا لیکن کوئی بھی وکیل اتنی کڑی شرائط پر کام کرنے کو تیار نہیں اور یہ ممکن نہیں کہ وکیل کل وکالت نامہ جمع کروائے اور پرسوں شروع کردے،
پانامہ کے نام سے شروع ہونے والے کھیل کی یہ آخری قسط کی ظلم اور نا انصافی انتہائی افسوسناک ہے ،ملک کا آئین توڑنے ، آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مرتکب ہونے والے ڈکٹیٹر کی کس طرح بلائیں لی جا رہی ہیں مگر اہلیہ کی عیادت کے لئے جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ۔ان حالات میں کس توقع کے ساتھ اپیل میں جاؤں گا اور کس کے پاس جاؤں گا ،اگر 25جولائی کے انتخابات سے قبل میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ضروری یا مجبوری ہے تو پھر فیصلہ کر دیجیے ، اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ قانون و انصاف ، آئینی تقاضوں ، بنیادی انسانی حقوق اور عدالتی روایات کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ وز ماڈل ٹاؤن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے صدر و سابق وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف ، راجہ ظفر الحق ، شاہد خاقان عباسی ، خواجہ آصف ،مریم نواز اور آصف کرمانی سمیت دیگر بھی موجود تھے ۔نواز شریف نے کہا کہ ہمارے وکیل خواجہ حارث نے دستبرادی کی درخواست دائر کر دی گئی ہے اور اسی طرح کی اطلاعات دوسرے وکیل امجد پرویز کی طرف سے بھی آرہی ہیں ،خواجہ حارث نے تحریری طور پر وہ تمام تفصیلات بیان کر دی ہیں جس کی بناء پر وہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئے، گزشتہ روز اتوار کے دن احتساب عدالت کی طرف سے تیسری بار توسیع کی درخواست کی سماعت کے لئے پہلی بار چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنی سربراہی میں بنچ قائم کرنے اور اتوار کے روز اس کی سماعت کرنا ضروری سمجھا ،
جسٹس اعجاز الحسن بنچ کے دوسرے رکن تھے جو ہمارے خلاف دائر ریفرنسز کی مانیٹرنگ بھی کررہے ہیں ،یعنی مانیٹرنگ جج ہیں جو میرے خلاف فیصلہ دینے والے بنچ کا بھی حصہ تھے، چیف جسٹس نے ہمارے وکیل سے کہا کہ ایک ماہ کے اندر اندر ریفرنسز کا فیصلہ آجانا چاہیے انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس مقصد کے کے لئے ہفتہ وار چھٹیوں اور مقرر ہ اوقات کے بعد بھی سماعت جاری رکھی جائے،ہمارے وکیل نے کہا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ کیس کی تیاری ،دلائل تیار کرنا ہوتے ہیں ،مطالع کرنا ہوتا ہے ایسا کسی بھی وکیل کے لئے بھی ممکن نہیں کہ ہفتہ وار چھٹی بھی نہ کرے اور ہر روز عدالت میں پیش بھی ہو اور انہی اوقات میں عدالتی کام جاری رکھے ،
چیف جسٹس نے ان گزارشات کے جواب میں کہا کہ آپ مجھے دھمکیاں نہ دیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ پیش نہیں ہو سکتے تو ملزمان کے وکیل بدل سکتے ہیں ، اپنے تحریری آرڈر میں چیف جسٹس نے کہا کہ احتساب عدالت اپنے اوقات کار خود طے کرے ، عدالت کو ہفتہ کے روز کارروائی کی اجازت بھی دیدی گئی ، حتمی طور پر یہ طے کر لیا گیا کہ کچھ بھی ہو اس ماہ میں ریفرنسز یا ریفرنس کے فیصلے سنا دیئے جائیں ۔ انہوں نے کہا کہ آج مجھے احتساب عدالت کی طرف سے کہا گیا کہ نیا وکیل کر لوں ، میں نے وقت مانگا ہے کل مزید بات ہو گی مگر اب تک مجھے یہی معلوم ہوا کہ کوئی بھی وکیل ان کڑی شرائط ، اتنے لمبے اوقات کار اور ہفتہ وار چھٹی کی دن بھی پیش ہونے کے لئے تیار نہیں ،
اگر کوئی نیا وکیل مل بھی جائے تو اسے ہزاروں صفحات کا جائزہ لینے ، گواہان کے بیان دیکھنے ، جے آئی ٹی جلدوں کی نو ہزار سے زائد صفحات کا مطالع کرنے ، تین صندوقوں میں بند کاغذات کو دیکھنے اور ریفرنسز کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے لئے نہ جانے کتنا وقت درکار ہو گا ،ایسا ممکن نہیں کہ وہ کل وکالت نامہ جمع کروائیں اور پرسوں دلائل شروع کر دیں ، یہ قانون و انصاف کا کھلا مذاق اڑانے والی بات ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کی ستر سالہ عدالتی تاریخ میں کسی احتساب عدالت پر اس طرح کی قدغنیں لگائی گئی ہوں ، آج تک کسی وکیل کو مجبور کیا گیا ہو کہ سارا دن رات گئے تک مقدمے لڑے اور چھٹی والے دن بھی پیش ہو ، یہ سب کچھ آرٹیکل 10اے ، 25اور فیئر ٹرائل کی بنیادی تقاضوں کے خلاف ہے ،
یہ انصاف اور قانون کے تمام تقاضوں کے خلاف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میرے بنیادی حقوق بری طرح صلب کیے جا رہے ہیں ، میں اپنے حق دفاع سے محروم کیا جا رہا ہوں ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ میں وکیل کی خدمات سے بھی محروم ہو گیا ہوں ، آج تک نیب کی طرف سے مختلف افراد پر ہزاروں مقدمات دائر ہیں کیا کسی ایک بھی مقدمے پر اس طرح روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو رہی ہے ، میں جس عدالت میں پیش ہو رہا ہوں اس کے پاس بھی 40دیگر مقدمات ہیں کیا چیف جسٹس کو کچھ علم ہے کہ وہ مقدمات کب درج ہوئے ، ملزمان نے کتنی پیشیاں بھگتیں، اب تک کیا کارروائی ہوئی، کیا کوئی ایک بھی مقدمہ ایسا ہے جس کی مانیٹرنگ کوئی سپریم کورٹ کا جج کر رہا ہے ، جس کے روز مرہ کے معاملات سپریم کورٹ کا کوئی بنچ نمٹاتا ہو ،
کیا آج تک کسی بڑے سے بڑے جرم میں بھی کسی پاکستانی نے ایک سو سے زائد پیشیاں بھگتی ہیں ، کیا چیف جسٹس جانتے ہیں کہ آج تک کسی وکیل کے لئے یہ حکم جاری ہوا کہ وہ بغیر تیاری کا وقت لیے مشین کی طرح عدالت میں حاضری دے ، یہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ ہے جو چل تو ایک احتساب عدالت میں رہا ہے مگر جڑیں سپریم کورٹ سے ہلائی جا رہی ہیں اگر ماتحت عدالت کی کارروائی پر اس طرح اثر انداز ہوا جائے ،اس طرح وکلاء صفائی پر دباؤ ڈالا جائے ، ان حربوں سے مجھے حق دفاع سے محروم کر دیا گیا ،ان حالات میں کس توقع کے ساتھ اپیل میں جاؤں گا اور کس کے پاس جاؤں گا ،آپ کو معلوم ہے کہ مانیٹرنگ جج وہ ہے جو میرے خلاف فیصلے کرنے میں شامل تھے ، فیصلہ بھی کیا ،
مانیٹرنگ بھی کررہے ہیں اور اپیل بھی ان کے پاس ہی لگے گی ۔نواز شریف نے مزید کہا کہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ریفرنسز میں تاخیر کی تمام تر ذمے داری استغاثہ پر ہے پہلی ، دوسری اور تیسری توسیع استغاثہ نے ہی مانگی میں نے نہیں ، جب بھی عدالت نے پوچھا کہ ملزمان کی طرف تعاون نہیں ہو رہا تو یہ بات ریکارڈ پر لانا پڑی کہ وکلاء صفائی کی طرف سے کوئی تاخیر نہیں ہوئی ،یعنی خواجہ حارث کی طرف سے کبھی کوئی تاخیر نہیں ہوئی ، ہمارے وکلاء نے ایک بھی پیشی کے لئے نئی تاریخ کا تقاضا نہیں کیا میں اب تک ایک سو کے لگ بھگ پیشیاں بھگت چکا ہوں مجھے اہلیہ سے ملنے کے لئے اجازت بھی نہیں دی جا رہی لیکن میں نے اور میرے وکلاء نے ہر حال میں تعاون جاری رکھا ،
گزشتہ روز چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ میں تشہیر کے لئے بیوی سے ملنے اور چھٹی کی بات کرتا ہوں مجھے ان ریمارکس سے دکھ اور صدمہ پہنچا ، میں نے ان کی عدالت میں ایسی کوئی رحم کی درخواست نہیں کی مگر نہیں معلوم کہ انہوں نے اس طرح کے ریمارکس کیوں دیئے ،مجھے نہیں معلوم کہ کون سا آئین ، کون سا قانون اور کون سا ضابطہ اخلاق انہیں اس طرح کی دل آزاری کی اجازت دیتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کے نام سے شروع ہونے والے کھیل کی یہ آخری قسط ظلم اور نا انصافی انتہائی افسوسناک ہے ، اب تک بہت سے راز کھل چکے ہیں اور بہت سے سوالوں کے جواب آنا باقی ہیں قوم کو پتہ لگنا چاہیے کہ فضول قرار دی گئی پٹیشن کیسے معتبر ہو گئی جے آئی ٹی کیسے بنی ، واٹس ایپ کال کس نے کی اور کس نے کروائی ،
جے آئی ٹی نے کہاں کہاں اور کیا کیا گل کھلائے اور جب کرپشن کا ایک بھی پیسہ ثابت نہیں ہوا تو ایک اقامہ نکالا گیا ایک خیالی تنخواہ دریافت کی گئی اور اس الزام میں کہ میں نے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی وزیر اعظم ہاؤس سے نکال دیا گیا ،آمدنی سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں تین ریفرنسز بنانے کی مثال بھی نہیں ملتی ، پھر بات نہ بنی تو ضمنی ریفرنس لائے گئے اور میں یہ کہنے پر مجبور ہوا کہ کب یہ ضمنی ریفرنسز رکیں گے کیا جب تک کچھ ایسا کر نہیں لیا جاتا اس وقت تک ایسے ریفرنسز بھی آتے رہیں گے ، کیس بھی چلتا رہے گا اور کرپشن کا تو کوئی ثبوت تو دور کی بات ہے الزام تک بھی نہیں ہے تو کس چیز کا انتظار کیا جا رہا ہے اس کیس کے فیصلے میں ، بار بار موقف بدلے گئے ،ہماری درجنوں درخواستیں رد کی گئی
مگر ہم نے پوری استقامت کے ساتھ تمام زیادتیوں ، نا انصافیوں ، تمام حق تلفیوں کا سامنا کیا ، اللہ کا شکر ہے کہ استغاثہ اپنے تمام دعوؤں میں ناکام رہا ۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی دوسری عجیب و غریب باتوں کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عدالت نے یہ طے کر لیا تھا کہ تینوں ریفرنسز کے فیصلے ایک ساتھ سنائے جائیں گے ، ہماری یہ استدعا رد کی جا چکی تھی کہ تینوں ریفرنسز ایک ساتھ سنیں جائیں کیونکہ ایک ہی الزامات کے تحت کئی کئی ریفرنسز نہیں بن سکتے لیکن بعد میں عدالت نے اپنے اس فیصلے سے بھی انحراف کر لیا کہ تینوں ریفرنسز کے فیصلے ایک ساتھ سنائے جائیں اور اب انتخابات سے عین پہلے ریفرنسز کے فیصلہ کن موڑ پر یہ صورتحا ل پیدا کر دی گئی ہے اب تو تین میں سے دو ریفرنسز کے گواہان پر جراح بھی نہیں ہوئی ،
مجھے نہیں معلوم کہ کیا میرا حق دفاع اہم ہے یا الیکشن سے پہلا فیصلہ ، قانون و انصاف کے تقاضے اہم ہیں یا الیکشن سے پہلے فیصلہ ،کیا پاکستانی شہری کے بنیادی حقوق اہم ہیں یا الیکشن سے پہلے فیصلہ ،میرے وکلاء کو جبراً بغیر تیاری عدالت میں پیش ہونے اور عدالتی مرضی ، منشاء اور اوقات کی پابندی کا حکم دیا جا رہا ہے ۔انہوں نے اس حکم کی پابندی سے معذرت کر لی ہے کوئی نیا وکیل فوری طور پر یہ بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں ، اسے مقدمے کے مطالع اور تیاری کے لئے وقت چاہیے اور مجھے حق دفاع سے محروم کر کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا گیا ہے میں قومی تاریخ کی طرف بھی ضرور اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس ڈکٹیٹر کی کس طرح بلائیں لی جا رہی ہیں جس نے دو بار ملک کا آئین توڑا ، جو آرٹیکل 6کے تحت غداری کا مرتکب ہوا ،جس نے ساٹھ ججز کو اہل خانہ سمیت قید کر دیا جس نے آئین پاکستان میں من مانی ترامیم کیں جس نے پاکستان کو دہشت گردی کی آگ میں جھونکا ، لیکن میں آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر 25جولائی کے انتخابات سے قبل میرے بارے میں کوئی فیصلہ کرنا ضروری یا مجبوری ہے تو پھر فیصلہ کر دیجیے ، اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ قانون و انصاف ، آئینی تقاضوں ، بنیادی انسانی حقوق اور عدالتی روایات کی دھجیاں اڑانے کے مترادف ہے ۔