لاہور(این این آئی) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی دو رکنی بنچ کی جانب سے 56کمپنیوں میں مبینہ کرپشن سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران طلب کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف عدالت میں پیش ہو گئے جبکہ چیف جسٹس نے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پیسہ واپس آنا چاہیے، آپ کریں یا جن لوگوں نے یہ پیسہ لیا ہے،
عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب ) کو کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز کی جائیداد وں کا تخمینہ لگانے کا بھی حکم دیدیا ،سپریم کورٹ نے پنجاب کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ پر20ارب روپے کے اخراجات کے فرانزک آڈٹ کے احکامات جاری کر تے ہوئے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کو بیرون ملک جانے سے بھی روک دیا۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے چھٹی کے روز بھی مختلف کیسز کی سماعت کی۔56کمپنیوں میں مبینہ کرپشن سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب کیپٹن (ر) زاہد سعید ،ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد ،نیب کے افسران سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے ۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وزیراعلی پنجاب شہباز شریف خود پیش ہو کر وضاحت کریں کہ کس قانون کے تحت سرکاری افسران کو بھاری تنخواہوں پر کمپنیوں میں بھرتی کیا گیا۔ جس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب عاصمہ حامد نے کہا کہ وزیر اعلی پنجاب کا کمپنیوں میں براہ راست کوئی کردار نہیں ۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ شہباز شریف کے کردار کے بغیر تو یہاں مکھی بھی نہیں اڑتی۔پوچھیں اپنے وزیر اعلی سے کہ وہ کہاں ہیں اور کس وقت عدالت پیش ہوں گے۔ چیف جسٹس نے نیب کو 56 کمپنیوں کے سی ای اوز کی جائیداد وں کا تخمینہ لگانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ معلوم کریں افسران کتنی پراپرٹی کے مالک ہیں تاکہ قوم کا پیسہ واپس لوٹایا جاسکے۔
عدالت کے طلب کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف عدالت میں پیش ہو گئے ۔چیف جسٹس کے استفسار پر شہباز شریف نے کہا کہ ایسی کمپنیاں پہلی بار نہیں بنائی گئیں، ماضی میں بھی ایسی کمپنیاں بنائی گئی تھیں۔یہ کمپنیاں صرف پنجاب ہی نہیں بلوچستان ، خیبر پختوانخواہ ، سندھ اور وفاق میں بھی بنائی گئی ہیں۔ چیف جسٹس نے شہباز شریف سے استفسار کیا کہ مجاہد شیر دل کو اتنی تنخواہ کیوں دی جارہی ہے، ان میں کیا خوبی ہے کہ انہیں 10 لاکھ روپے تنخواہ دی گئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ عوام آپ سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں جس پر شہباز شریف نے درخواست کی کہ مجھے بات کرنے کا موقع دیا جائے،
آپ جو بھی رولنگ دیں گے قبول ہوگی۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو رولنگ قبول کرنا ہو گی ،آپ نہ بھی کریں تو آپ کو بات کرنی ہوگی، ملک میں قانون کی عملداری چلے گی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے عوام سے کیا گیا کون سا وعدہ پورا کیا جس پر شہباز شریف نے کہا کہ ہم قومی خزانے کے امین ہیں ، ایک ایک پائی کی حفاظت کر رہے ہیں، میں نے 160 ارب روپے کی بچت کی اور ایک دھیلہ بھی کم ہو تو جو مرضی سزا دیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ میں آپ کے احتساب کے لیے نہیں بیٹھا، احتساب کے لیے کوئی اور ادارہ ہے وہ اپنا کام کرے گا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گزشتہ کئی برس سے آپ کا ہی دور رہا ہے،
کیپٹن (ر)عثمان کو صاف پانی کمپنی میں 14 لاکھ روپے تنخواہ کس قانون کے تحت دی گئی جس پر شہباز شریف نے کہا کہ آپ مجھے کل بلالیں میں تفصیل لے کر آؤں گا۔شہباز شریف نے کہا کہ جو بھی فیصلہ کریں گے مجھے قبول ہے، آپ ملک کی عدالت کے سب سے بڑے جج ہیں، میرے خلاف کرپشن کا ایک دھیلہ بھی نکل آئے تو سزا کے لیے تیار ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنی ذات کو کیوں بار بار لے آتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ صاف پانی کمپنی میں کروڑوں روپے لگ گئے ہیں لیکن عوام کو پینے کے لئے صاف پانی کی ایک بوند میسر نہیں آئی۔ آپ بطور وزیر اعلیٰ قومی خزانے کے امین تھے ۔ سب سے بڑا سوال ہے کہ میرٹ پر بھرتیاں کیسے ہوں گی ۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ میں نے آپ کو مخصوص سوال کے جواب کے لیے بلایا ہے، کمپنیوں میں 25،25 لاکھ پر ان لوگوں کو کیوں رکھا گیا۔شہباز شریف نے کہا کہ لوگوں کو کمپنیز میں شفاف طریقے سے ملازمت دی جاتی ہے ۔اگر کرپشن ہوئی ہے تو کارروائی کر کے ریکور کر لیں۔ہم آپ کے ہر فیصلے کو قبول کریں گے۔شہباز شریف نے کہا کہ صاف پانی کمپنی میں بدعنوانی انہوں نے پکڑی ۔مجھے یہ کہا گیا کہ یہ ناکامی ہے اسے نہ بتائیں لیکن میں اس گھپلے کو قوم کے سامنے لایا ۔ہم نے 70ارب روپے بچائے ، یہ 70ارب کا قوم سے فراڈ ہونے والا تھا۔ آپ ریکارڈ منگوا لیں غلط ہوا تو جو سزا دیں گے مجھے قبول ہے ۔
شہباز شریف نے کہا کہ گناہگار آدمی ہوں ، کمزور ہوں ۔ آج یہ کمرہ ٹھنڈا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی ،ہم نے محنت اور شفافیت سے انرجی پراجیکٹس لگائے ہیں۔ایک دھیلے کی بھی کرپشن ہو تو مجھے جو چاہیں سزا دیں ۔ نہایت ادب کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ پاکستان کی 70سال کی تاریخ میں کس نے 160ارب روپے بچائے ۔شہباز شریف نے کہا کہ کمپنیوں میں لوگوں کو بھاری تنخواہ پر رکھنے کا فیصلہ فنانس ڈیپارٹمنٹ کے مطابق کیا ۔کمپنیوں میں فنانشل رول کے تحت تنخواہیں دی جاتی ہیں ، اس کا فیصلہ ایک بورڈ کرتا ہے ۔یہ فیصلہ میں نہیں کرتا فائلیں میرے پاس نہیں آتیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ جناب والا جہاں اچھا کام ہو اسے ضرور سراہا جانا چاہیے اس کی تعریف کی جانی چاہیے ۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا کہ مجھے کیا ضرورت پڑی تھی کہ جہاں لوئر بڈر سے بھی پیسے کم کرواتا پھروں۔نیلم جہلم پراجیکٹ سے قومی خزانے سے پانچ سو ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ کھچی کینال اور نندی پور جیسے پراجیکٹ نے خزانے کو نقصان پہنچایا ۔ میں نے قوم کی خدمت کے لئے خون دیا ہے ۔چیف جسٹس نے شہباز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے جواب سے غیرمطمئن ہوں، یہ پیسہ واپس آنا چاہیے، آپ کریں یا جن لوگوں نے یہ پیسہ لیا ہے۔ فاضل عدالت کی جانب سے نیب کو افسران کی
جائیدادوں کی معلومات اکٹھی کرنے اور قوم کا پیسہ واپس لوٹانے کے ریمارکس پر سربراہ اربن پلاننگ اینڈ مینیجنگ کمپنی نے کمرہ عدالت میں کہا کہ میں خودکشی کرلوں گا جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ کی اس دھمکی سے عدالت اپنا فیصلہ نہیں بدلے گی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جس کمپنی کا سربراہ قوم کا پیسہ نہ لوٹا سکے اس کو جیل ہوگی۔چیف جسٹس نے اس حوالے سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صوبے کی 56 کمپنیوں میں مختلف شعبوں میں کرپشن کا بازار گرم رہا اور اس کی رپورٹ وزیر اعلی پنجاب کو موصول نہ ہوئی ہو۔ دوران سماعت ڈی جی نیب نے 56کمپنیوں کے حوالے سے رپورٹ بھی پیش کی
جس میں بتایا گیا کہ ان میں بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ ایک اور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک سمیت چار ملزمان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کے احکامات جاری کر دئیے ۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں ملزمان کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے ؟۔نیب کے وکیل نے بتایا کہ اس کی تحقیقات جاری ہیں اور ملزمان کے ای سی ایل میں ڈالنے کیلئے نیب ہیڈ کوارٹر کو لکھ دیا گیا ہے۔دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ ملزمان 12مارچ کو ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ ڈی جی نیب نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری کیلئے ریڈ وارنٹ جاری کئے جارہے ہیں ۔
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ریڈ وارنٹ کیسے جاری ہوتے ہیں۔ بغیر عدالتی حکم کے ریڈ وارنٹ جاری نہیں ہو سکتے ۔ انہوں نے حکم دیا کہ عدالت سے ریڈ وارنٹ کا حکم لیں اور تمام کارروائی مکمل کریں ۔ دوران سماعت فاضل عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ مقدمے میں ملوث تمام ملزمان کی جائیدادیں سیل کر دی گئی ہیں۔ نیب کی جانب سے استدعا کی گئی کہ کچھ وقت دیا جائے تاکہ سارے معاملے کی تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کی جا سکے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پنجاب کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ میں مبینہ بے ضابطگیوں کی سماعت کے دوران 20ارب کے اخراجات کا فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم دیتے ہوئے تین ہفتوں میں رپورٹ طلب کر لی۔
دوران سماعت ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سعید اختر عدالت کے رو برو پیش ہوئے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ادارے میں بند ر بانٹ کی گئی ، کس طرح بھاری تنخواہوں پر تعیناتیاں کی گئی ہیں؟۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سرکاری طو رپر گریڈ 21اور 22کے افسران جو ایک لاکھ بیس ہزار روپے تنخواہ لے رہے تھے ان کو کس قانون کے تحت بارہ ، بارہ لاکھ روپے تنخواہیں دی گئیں۔ ڈاکٹر سعید اختر نے کہا کہ میں خدمت خلق کر رہا ہوں اور ایمانداری سے کام کر رہا ہوں ۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا خدمت خلق کر رہے ہیں بارہ لاکھ روپے خود لے رہے ہیں اور اپنی اہلیہ کوبھی آٹھ لاکھ روپے تنخواہ دلوا رہے ہیں۔ اے پلس کنسٹرکشن3ہزار روپے فی سکیر فٹ پر ہوتی ہے ،
پی کے ایل آئی میں 10100میں فی سکیر فٹ کنسٹرکشن کرائی گئی ہے ۔یہ سلطنت نہیں ہے ،عوام کا پیسہ اس طرح بے دریغ لٹانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔بندوں کو مت خوش کریں اللہ کو راضی کریں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا احتساب ہوگا اور آپ کو اس سے بھاگنے نہیں دیں گے۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ آپ عدالت کی اجازت کے بغیر بیرون ملک نہیں جائیں گے۔چیف جسٹس نے بیس ارب روپے کے اخراجات کا فرانزک آڈٹ کرنے کا حکم دیتے ہوئے بے ضابطگیوں کی نشاندہی کر کے رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیدیا ۔دوران سماعت چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب سے بھی استفسار کیا کہ مجاہد شیر دل کو کس طرح تعینا ت کیا گیا جس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ ان کا کچھ تجربہ ہے ۔چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک سرکاری افسر ریٹائر ہونے کے بعد نوازا جارہا ہے اور انہیں اہم عہدے دے کر بھاری مراعات دی جارہی ہیں اور یہ کس قانون کے تحت ہے ۔چیف جسٹس نے کہا کہ مجاہد شیر دل کو عہدے سے ہٹایا جائے اور انہیں عدالت میں پیش کیا جائے ۔